امریکہ اور ترکی مل کر شام کے شمالی علاقوں کو داعش کے باغیوں سے خالی کرانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
امریکہ نے منگل کو بتایا ہے کہ ’داعش‘ پر حملے کے مشترکہ منصوبے سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ترکی کی شرکت میں نمایاں اضافہ ہو گا۔
امریکی حکام نے خبر رساں اداروں کو بتایا کہ حملے کا مقصد داعش سے پاک ’بفر زون‘ کا قیام ہے، تاکہ شام سے ملنے والا ترکی کا سرحدی علاقہ زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔ تاہم اس کارروائی میں ترکی کا خطے کو نو فلائی زون میں شامل کرنے کا دیرینہ مطالبہ شامل نہیں۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ شامی حکومت کے ہوائی حملے کو روکنے کے لیے ’نو فلائی زون‘ کے قیام سے امریکی افواج کی شامی صدر بشار السد کو ہٹانے کے لیے مختلف گروپوں سے جاری چار سالہ جنگ میں مزید تیزی آئے گی۔
ایک ماہ کے تذبذب کے بعد ترکی نے ایک ہفتے قبل ہی خودکش حملے میں 32 افراد اور کار بم میں ترکی کے دو فوجیوں کی ہلاکت کے بعد شام میں مسلح دہشت گردوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
اور یوں، ترکی پہلی بار اس بات پر بھی رضا مند ہوا کہ دہشت گردوں کے خلاف فضائی حملے کے لئے وہ امریکہ کو اپنا اینکریک کا فوجی ایئربیس استعمال کرنے دے، جس کی وجہ سے امریکہ کے ہوائی جہازوں کو حملے کے لئے عراق سے طویل فاصلہ طے کرکے شام کے شمال میں آنے کی بجائے مختصر ترین راستہ مل جائے گیا ہے۔
دریں اثنا، دہشت گردوں کے خلاف ترکی کے ہوائی حملے شام میں زمینی جنگ کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، جہاں شام کے کرد انتہا پسندوں کے خلاف مزاحمت کے لئے مؤثر ترین طاقت سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن، انقرہ کو خدشہ ہے کہ یہ طاقت ترکی میں کرد بغاوت کو بھی فروغ دے سکتی ہے۔
ترکی نے اپنے سیکورٹی کے مسائل کو زبر بحث لانے کے لئےمنگل کو نیٹو کے ساتھ خصوصی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردوں کے خوفناک حملوں کے بعد یہ اجلاس صورتحال کی سنگینی کے پیش نطر طلب کیا گیا ہے۔
امریکی حمایت سےشام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے مسلح جنگجوؤں اور کردوں پر ترکی کے جارحانہ فضائی حملوں کے دوران دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اتوار کو بتایا کہ انقرہ صرف اپنے اس حق تک محدود رہنا چاہتا ہے کہ دہشت گردوں کی کارروائی کے جواب میں ان کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا جائے، بشمول اس کے کہ جب شمالی عراق میں جمعہ کو کرد ورکرز پارٹی کے ساتھ اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی جو کہ 2013 ءکے امن معاہدے کے بعد گرد گروپ کے خلاف پہلی جارحانہ کارروائی تھی۔