ترکی نے فرانس کے صدر ایمانوئیل میخواں پر الزام لگایا ہے کہ وہ شام میں دہشت گرد گروہوں کی معاونت کر رہے ہیں۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ مولود چاوش اولو نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ فرانسیسی صدر نہ صرف شام میں دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں بلکہ ان کی صدارتی محل میں میزبانی بھی کرتے ہیں۔
ترک وزیرِ خارجہ نے کہا کہ فرانس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ترکی بھی 'نیٹو' کا رکن ہے اور اپنے حلیفوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔
فرانس کے صدر ایمانوئیل میخواں نے حال ہی میں ترکی کی جانب سے شام کے سرحدی علاقوں میں کرد جنگجووں کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی پر تنقید کی تھی۔
فرانس کے صدر نے کہا تھا کہ ترکی کی جانب سے گزشتہ ماہ سے جاری فوجی کارروائی نے داعش کے خلاف اتحادیوں کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
لیکن، ترکی کا کہنا ہے کہ فرانس کے صدر نے شام میں باغیوں کے ساتھ گزشتہ ماہ مذاکرات کیے۔
خیال رہے کہ ترکی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے منسلک گروپ 'وائی پی جی' ملیشیا کے خلاف گزشتہ ماہ سے شمالی شام میں کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ترکی 'وائی پی جی' کو اپنی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
ترک حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ 'وائی پی جی' اور کردستان ورکرز پارٹی گزشتہ 35 سال سے ترکی میں علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دینے کے لیے پرتشدد کارروائیاں منظم کرتے ہیں۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ فرانس باغی گروہوں کی حمایت کر کے شام میں کردوں کی الگ ریاست کا قیام چاہتا ہے۔
فرانس کے صدر ایمانوئیل میخواں نے جمعرات کو نیٹو سربراہ جیمز اسٹولٹنبرگ سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ گو ترکی میں پُر تشدد کارروائیاں ہوتی رہی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترکی بطور نیٹو رکن دیگر ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر یک طرفہ اقدامات کرے۔
خیال رہے کہ داعش کو شکست دینے کے لیے نیٹو فورسز بھی سرگرم ہیں جس کا ترکی رکن ہے۔
امریکہ اور بعض یورپی ممالک 'وائی پی جی' ملیشیا کو داعش کے خلاف سرگرم ایک اہم قوت سمجھتے ہیں۔ البتہ، ترکی 'وائی پی جی' کے ٹھکانوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
ترکی نے گزشتہ ماہ نو اکتوبر کو شام کے شمال میں کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
ترکی شمالی شام میں 'سیف زون' بنانا چاہتا ہے، جہاں کرد جنگجو سرگرم ہیں۔ ترکی یہاں ان شامی مہاجرین کو بھی آباد کرنا چاہتا ہے جو خانہ جنگی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں ترکی میں پناہ گزین ہیں۔