نیٹو کے اپنے اتحادیوں سمیت امریکہ نے منگل کے روز شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف مہم میں دباؤ بڑھاتے ہوئے روس پر الزام لگایا کہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے پیرس میں کہا کہ ’’مشرقی غوطہ میں ہونے والے حالیہ حملوں کے نتیجے میں تشویش بڑھی ہے کہ بشار الاسد کی حکومت نے اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے‘‘۔
ٹلرسن نے کہا کہ دمشق کے قریب باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی غوطہ میں پیر کے روز ہونے والے کلورین گیس کے حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔ اسد حکومت کی حمایت کرنے پر اُنھوں نے روس کا نام لیا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ژان ویسلے ریان کے ہمراہ اخباری بریفنگ کرتے ہوئے، ٹلرسن نے کہا کہ ’’مشرقی غوطہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار روس ہی ہے، چاہے کسی نے بھی یہ حملے کیے ہوں؛ چونکہ جب سے روس شام میں ملوث ہوا ہے، شام کے بے شمار لوگوں پر کیمیائی حملے ہوچکے ہیں‘‘۔
ٹلرسن نے فرانس، جرمنی اور ترکی کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ منگل کے روز کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے استثنیٰ کے بارے میں بین الاقوامی ساجھے داری کا منصوبہ شروع کیا۔
دو درجن ہم خیال ملکوں نے دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے تدارک کی اطلاعات کے اشتراک پر سیاسی عزم کی توثیق کی۔
امریکی وزیر خارجہ نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے معاملے کے حل میں ناکامی کی جانب توجہ دلائی، جس میں مجموعی بحران کے حل کے عزم پر سوال اٹھائے گئے تھے۔
ٹلرسن کے بقول، ’’روس اتنا تو کر سکتا ہے کہ وہ ویٹو کرنا بند کرے، اور اس معاملے پر سلامتی کونسل میں ہونے والی ووٹنگ میں شرکت سے غیر حاضر رہے‘‘۔