رسائی کے لنکس

ترکی کی شام میں فوجی کارروائی، ایک لاکھ 30 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ترکی کے شام کے سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ تل ابید اور راس العین کے اطراف کے علاقوں سے جنگ کے باعث ایک لاکھ 30 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے آفس آف دی کوآرڈینیشن آف ہیومنٹیرین افیئرز کا کہنا ہے کہ امدادی اداروں کے اندازے کے مطابق آنے والے دنوں میں چار لاکھ عام شہریوں کو خوراک، امداد اور تحفظ کی ضرورت ہو گی۔

دوسری جانب کردوں کے زیر انتظام علاقے کے حکام کا کہنا ہے کہ ترکی کے حملےکے بعد داعش کے جنگجوؤں کے خاندانوں کو رکھنے کے لیے بنائے گئے کیمپ سے خواتین اور بچے فرار ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ ترکی نے پانچ روز قبل پڑوسی ملک شام میں کردوں کے زیر انتظام علاقے میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ ترکی کرد گروہ وائی پی جی اور اس کی حامی مسلح فورس ایس ڈی ایف کو باغی قرار دیتا ہے جبکہ حالیہ فوجی کارروائی کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ترکی شام میں 32 کلو میٹر کا ایک سیف زون بنانا چاہتا ہے۔

ترکی کے مطابق وہ اس سیف زون میں شام سے آنے والے 20 لاکھ مہاجرین کو آباد کرے گا۔ ترکی میں شامی مہاجرین کی مجموعی تعداد 35 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ جبکہ ترکی اس زون کو اپنی حفاظت کے لیے بھی اہم قرار دیتا ہے کیوں کہ اس سے کرد باغی فورسز کی کارروائیوں کو روکا جا سکے گا۔

ترکی کو اس کارروائی میں شام میں موجود اس کے حامی مسلح گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

امریکہ سمیت یورپی ممالک کی جانب سے ترکی پر پابندیوں کا عندیہ بھی دیا جا چکا ہے تاہم ترکی نے تمام دباو کو مسترد کرتے ہوئے کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

نیٹو میں شامل جرمنی اور فرانس ترکی کو اسلحے کی فراہمی بند کرنے کا کہہ چکے ہیں جبکہ عرب لیگ نے بھی کارروائی پر تشویش ظاہر کی ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کہہ چکے ہیں کہ ان پر کارروائی روکنے کے لیے زیادہ دباؤ ڈالا گیا تو وہ مہاجرین کو یورپ کی طرف بھیج دیں گے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس خطے میں کرد افواج امریکہ کی اہم اتحادی سمجھی جاتی رہی ہیں۔ تاہم امریکہ نے ترکی کی فوجی کارروائی سے قبل اپنے اہلکاروں کو اس خطے سے نکال لیا تھا جس پر کردوں کی جانب سے شدید مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

کردوں کے زیر انتظام علاقوں کی انتظامیہ کے مطابق عین العیسیٰ میں داعش سے تعلق رکھنے والے 785 افراد جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں کیمپوں سے فرار ہوئے ہیں۔

دوسری جانب شام کی جنگ پر نظر رکھنے والے برطانیہ کے انسانی حقوق کے ادارے سیرین آبزرویٹری کے مطابق کیمپ سے فرار ہونے والوں کی تعداد 100 کے قریب ہے۔

شام میں داعش کے خلاف جنگ کے دوران مختلف علاقوں میں کیمپ بنائے گئے تھے جن میں شدت پسند گروہ کے جنگجووں کے خاندانوں کو رکھا گیا تھا ان میں سے کئی کردوں کی حامی سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے کنٹرول میں تھے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایس ڈی ایف کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جس کیمپ سے لوگ فرار ہوئے ہیں وہ ترکی کی سرحد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ وہاں سکیورٹی کے موثر انتظامات نہیں تھے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ عمومی طور پر ایک کیمپ میں 12000 افراد پر 700 سکیورٹی اہلکار متعین ہوتے ہیں تاہم حالیہ دنوں میں وہاں 60 سے 70 اہلکار ہی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔

سیرین آبزرویٹری کے مطابق ترک افواج اپنے حامی شامی جنگجوؤں کے ہمراہ ترک سرحد سے 10 کلو میٹر کے علاقے میں داخل ہو چکی ہے۔

ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے کئی علاقوں پر ترک افواج کے قبضے کی خبریں نشر کر رہے ہیں تو دوسری جانب کرد افواج کی جانب سے بھی ان علاقوں پر کنٹرول ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

ترک کی وزارت دفاع نے پانچ روز کے دوران کرد فورسز کے 480 اہلکار مارنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ ایس ڈی ایف نے اپنے 76 اہلکار مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔

دوسری جانب سیرین آبزرویٹری کے مطابق ایس ڈی ایف کے 104 جنگجو مارے گئے ہیں۔

آبزرویٹری کے مطابق ترکی کے حامی شام میں موجود 76 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 52 عام شہری بھی نشانہ بنے ہیں۔

کرد فورسز کی گولہ باری سے ترکی کی سرحدی حدود میں 18 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔

سیرین آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ ترکی کے حامی مسلح گروہ نے شام میں ایک سڑک پر نو افراد کو قتل کر دیا ہے۔

آبزرویٹری کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون سیاسی رہنما بھی شامل ہیں جن کا تعلق فیوچر سیریا پارٹی سے تھا۔

XS
SM
MD
LG