امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے شمالی علاقے سے امریکی فوجوں کے انخلاء کا دفاع کیا ہے۔
اس سے قبل امریکی اقدام پر شدید تنقید سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوجوں کے انخلاء سے امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فوجوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اس سے داعش کے خلاف جاری لڑائی بھی متاثر ہو گی۔
صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ’’وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ ختم ہونے والی بے کار جنگوں سے کنارہ کشی اختیار کریں جو زیادہ تر قبائلی نوعیت کی ہیں۔ ہمیں اپنے فوجیوں کو واپس بلانا چاہئیے۔ ہم صرف وہ جنگیں لڑیں گے جن میں ہمارا مفاد ہو اور ہم صرف جیتنے کیلئے لڑیں گے۔‘‘
صدر ٹرمپ کا مذید کہنا تھا، ’’اب ترکی، یورپ، شام، ایران، عراق، روس اور کردوں کو طے کرنا ہے کہ وہ اس صورت حال میں کیا کرنا چاہتے ہیں اور داعش کے گرفتار ہونے والے جنگ جوؤں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سب داعش کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ہم وہاں سے 7,000 میل دور ہیں اور اگر داعش کے جنگجو ہمارے قریب آئے تو ہم انہیں تباہ کر دیں گے۔‘‘
ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ اب ترکی جلد ہی شمالی شام میں اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دے گا۔ وائٹ ہاؤس نے اتوار کے روز صدر ٹرمپ اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ہونے والی ٹیلی فون بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی مسلح افواج نہ تو اس لڑائی کی حمایت کریں گی اور نہ ہی اس میں ملوث ہوں گی اور وہ داعش کو شکست دے چکی ہیں لہذا وہ اب اس علاقے میں موجود نہیں رہیں گی۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کرد فوجوں کی مدد کرنا امریکہ کیلئے خاصا مہنگا رہا ہے کیونکہ امریکہ نے کرد فوجوں کو بھاری مالی وسائل فراہم کیے ہیں۔
کرد فوجوں کے ترجمان مصطفےٰ بالی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی کی کارروائیاں شام کو مذید عدم استحکام کی جانب دھکیل دیں گی۔ اُن کا کنا تھا کہ ترکی کی فوجی کارروائیاں انتہائی سنگین نوعیت کی ہیں اور ان کے نتیجے میں شام میں وسیع پیمانے پر قتل عام شروع ہونے کا امکان ہے۔
صدر ٹرمپ کے حامی رپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے امریکی فوجوں کے انخلاء پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تباہی کا پیش خیمہ ہو گا۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے داعش شام میں دوبارہ زور پکڑ سکتا ہے اور یہ کرد فوجوں کو اسد اور ایران کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر مجبور کر دے گا اور امریکی کانگریس کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں خرابی کا باعث بنے گا۔ لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ کردوں کی حمایت ترک کرنے سے امریکی وقار داغدار ہو جائے گا۔
لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کو واپس لینے پر زور دینے کی خاطر سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کریں گے۔
ایک اور رپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے بھی صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو سنگین غلطی قرار دیا ہے۔
کرد فوجوں نے شام میں ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے حراستی مراکز میں قید کر رکھا ہے جن میں سے بہت سے ایسے افراد بھی شامل ہیں جو داعش میں شامل ہونے کیلئے مغربی ممالک سمیت دنیا کے مختلف علاقوں سے شام میں آئے تھے۔