رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان: عسکریت پسندوں کا روسی سیاح کو اغوا کرنے کا دعویٰ


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • اغوا کاروں نے روسی مغوی کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی ہے لیکن شناخت ظاہر نہیں کی
  • حکام کا کہنا ہے کہ اغوا کی کارروائی حافظ گل بہادر گروپ کے شوریٰ مجاہدین نے کی ہے۔
  • مقامی حکام نے بھی روسی سیاح کے اغوا کی تصدیق کی ہے
  • روس کے سفارت خانے نے تاحال اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے

پشاور__افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں سرگرم طالبان عسکریت پسندوں نے ایک روسی سیاح کو اغواء کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔

اغواکاروں نے روسی مغوی کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔ تاہم ٹی ٹی پی کی جانب سے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل، امریکہ، برطانیہ، چین، ایران اور روس سمیت کئی ممالک دہشت گرد اور کالعدم تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

شمالی وزیرستان کے سول انتظامی حکام نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔ لیکن اغوا کیے گئے روسی سیاح کو کہا رکھا گیا ہے؟ اس بارے میں انہوں نے لاعلمی ظاہر کی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے اتحادی کمانڈر حافظ گل بہادر گروپ کی شوریٰ مجاہدین نے روسی سیاح کو اغوا کیا ہے۔

کالعدم شدت پسند تنظیم کے بعض ذرائع نے بھی وائس آف امریکہ کو روس کے سیاح کو اغواء کرنے کے دعوے کو درست قرار دیا ہے۔

عسکریت پسندوں کی سوشل میڈیا پر جاری کردہ پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مغوی سیاح کے بازیابی کے لیے اسلام آباد میں روسی سفارت خانے کی جانب سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔

تاہم اسلام آباد میں روسی سفارت خانے یا وزارتِ خارجہ کی جانب سے روسی سیاح کے اغوا پر ابھی تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا ۔

مقامی سرکاری حکام کی جانب سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی گئی معلومات پر اتوار کو بتایا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں پی ٹی سی ایل کے تین ملازمین کو بھی اغوا کیا گیا ہے۔

ان کے بقول تینوں افراد کو میران شاہ کے ایک گاؤں سے اغوا کیا گیا۔

پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے اغوا کی بھی تاحال سرکاری طور پر باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی۔

شمالی وزیرستان میں اغوا کی کارروائیاں

شمالی وزیرستان 2014 کے فوجی آپریشن ’ضربِ عضب‘ سے قبل عسکریت پسند اغواء کاروں کا مرکز رہا تھا۔ 2005 سے 2014 تک پشاور اور اسلام آباد سے غیر ملکی سفارت کاروں سمیت بہت سے افراد کو شدت پسندوں نے اغواء کرکے اس قبائلی علاقے میں اپنے قائم کردہ خفیہ ٹھکانوں میں یرغمال بنا رکھا تھا۔

ان افراد میں پشاور میں تعینات افغانستان کے سابق کونسل جنرل عبدالخالق فراھی، پشاور میں تعینات ایک ایرانی سفارت کار، افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر عزیز الدین، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان، سابق وزیر اعظم اور سینیٹ کے موجودہ چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی اور پنجاب کے مرحوم گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر نمایاں شخصیات میں شامل ہیں۔

اس دوران ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے پاکستان کے طاقت ور خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلی جینس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے مقبول ترین کرنل (ر) سید امیر حسین گیلانی عرف کرنل امام اور کرنل (ر) خالد خواجہ کو اغوا کیا تھا۔ ان کے ساتھ برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافی کو بھی یرغمال بنایا گیا تھا۔

بعد میں طالبان عسکریت پسندوں نے آئی ایس آئی کے دونوں سابق افسران کو قتل کر دیا تھا جب کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافی کو رہا کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG