امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے صدارتی انتخاب کے نتائج پر سوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ "انتخابات ابھی ختم نہیں ہوئے۔"
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کی جانب سے جمعے کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جن ریاستوں میں ووٹوں کا فرق بہت کم ہے، وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر صدر ٹرمپ ہی جیتیں گے۔
صدر ٹرمپ نے بھی انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق اپنے الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کے خلاف اپنی مزاحمت کبھی ترک نہیں کریں گے۔
جمعے کی سہ پہر جاری ایک بیان میں صدر نے کہا کہ ان کا مؤقف اور جدوجہد امریکہ کے پورے انتخابی نظام کی ساکھ بچانے کے لیے ہے جس سے وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
بعد ازاں جمعے کی رات اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ انتخابات سے متعلق قانونی کارروائی شروع ہونے والی ہے۔ انہوں نے جو بائیڈن کو صدارتی انتخاب میں کامیابی کا دعویٰ کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دعویٰ وہ خود بھی کر سکتے ہیں۔
اپنے ایک اور ٹوئٹ میں صدر کا کہنا تھا کہ الیکشن کی رات تک انہیں تمام ریاستوں میں برتری حاصل تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ان کی برتری غائب ہو گئی۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ جیسے ہی قانونی کارروائی آگے بڑھے گی ان کی برتری واپس لوٹ آئے گی۔
صدر ٹرمپ کے قریب سمجھے جانے والے کئی ری پبلکن سینیٹرز نے بھی ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے بعد جو بائیڈن کی برتری میں اضافے پر سوال اٹھائے ہیں اور انتخابات میں دھاندلی سے متعلق صدر کے الزامات کی تائید کی ہے۔
انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھانے والوں میں آرکنسا کے سینیٹر ٹم کاٹن، ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز اور ساؤتھ کیرولائنا سے منتخب سینیٹر لنزی گراہم سرِ فہرست ہیں۔
تاہم اب تک صدر یا ان کے حامیوں کی جانب سے کسی دھاندلی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔
عدالتی جنگ میں شدت
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور ری پبلکن پارٹی نے کئی ریاستوں میں ووٹوں کی جاری گنتی روکنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا ہے جب کہ کئی ایسی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی دوبارہ کرانے کا عندیہ بھی دیا ہے جہاں صدر ٹرمپ کے ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن نے اب تک سامنے آنے والے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق معمولی مارجن سے فتح حاصل کی ہے۔
امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' کے مطابق صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے وکلا اور ری پبلکن پارٹی کے عہدیدار نیواڈا، پینسلوینیا، مشی گن اور جارجیا کی مختلف عدالتوں میں ووٹوں کی گنتی روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت سے متعلق لگ بھگ ایک درجن سے زائد مقدمات دائر کر چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم نے ریاست وسکونسن میں بھی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے جہاں جو بائیڈن نے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق صرف 20 ہزار ووٹوں سے فتح حاصل کی ہے۔
ریاست جارجیا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ بریڈ ریفنزپرجر نے جمعے کو کہا ہے کہ چوں کہ ریاست میں جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ووٹوں کے درمیان فرق نصف فی صد سے بھی کم ہے، لہٰذا ریاست میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جائے گی۔
جارجیا میں اب تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے جن میں جو بائیڈن صرف چند ہزار ووٹوں سے آگے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے وکلا اور ری پبلکن رہنماؤں نے ریاست پینسلوینیا میں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی میں بے ضابطگی کی شکایت کرتے ہوئے ان ووٹوں کی گنتی روکنے کے لیے بھی عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔
پینسلوینیا ان چھ ریاستوں میں شامل ہے جہاں اب تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ ریاست میں بدھ کی صبح تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے ڈیموکریٹ حریف پر چھ لاکھ ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔
لیکن ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے بعد ان کی یہ سبقت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی اور جمعے کی دوپہر تک پینسلوینیا میں جو بائیڈن کو برتری حاصل ہوگئی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔
ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹ تنازع کا سبب
جو بائیڈن کی انتخابی مہم نے اپنے حامیوں سے زیادہ سے زیادہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اپیل کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی ہو رہی ہے، جو بائیڈن کے ووٹوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ میں اس سال لگ بھگ 10 کروڑ رائے دہندگان نے کرونا کی وبا کے باعث 'ارلی ووٹنگ' کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تین نومبر کو انتخابات کے دن سے قبل ہی اپنا ووٹ کاسٹ کردیا تھا۔
ان میں سے دو تہائی سے زیادہ ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے تھے جن کی تصدیق اور گنتی کا عمل زیادہ طویل ہے اور اسی وجہ سے ان ووٹوں کی گنتی میں تاخیر ہو رہی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی مخالفت کرتے رہے تھے اور ان کا مؤقف تھا کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے سے انتخابات میں دھاندلی ہوسکتی ہے۔
تین نومبر کو انتخابات ہونے کے بعد سے صدر ٹرمپ مسلسل ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی شفافیت پر سوال اٹھا رہے ہیں اور ڈیموکریٹس پر دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ صدر اور ان کے حامیوں نے اب تک ان الزامات کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
جو بائیڈن کا 'صلح کا پیغام'
دوسری جانب جو بائیڈن نے جمعے کی شب متعدد ٹوئٹس کیں جن میں انہوں نے نہ صرف اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا بلکہ مخالفین کو صلح کا پیغام بھی دیا۔
ایک ٹوئٹ میں بائیڈن نے کہا کہ نتائج بتا رہے ہیں کہ ہم انتخابات جیت رہے ہیں۔
بائیڈن نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ ہم مخالف ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ہم دشمن نہیں ہیں۔ ہم امریکی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہماری سیاست کا مقصد بے لگام جنگ نہیں ہے۔
جو بائیڈن اس وقت نہ صرف پاپولر ووٹ لے کر آگے ہیں بلکہ الیکٹورل کالج میں بھی انہیں ڈونلڈ ٹرمپ پر سبقت حاصل ہے۔ ڈیموکریٹ امیدوار اب تک 254 الیکٹورل ووٹ حاصل کرچکے ہیں اور وہ صدر منتخب ہونے کے لیے درکار 270 ووٹوں کے ہدف سے صرف 17 ووٹ کی دوری پر ہیں۔
اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کے 214 الیکٹورل ووٹ ہیں اور جن چھ ریاستوں میں اب تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے، ان میں سے انہیں صرف دو میں برتری حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ کو دوسری مدت کے انتخاب کے لیے ان چھ میں کم از کم پانچ ریاستوں میں فتح حاصل کرنا ہوگی۔