رسائی کے لنکس

سینیٹ میں برتری کے لیے ڈیمو کریٹس اور ری پبلکنز کے درمیان سخت مقابلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ میں صدر کے عہدے کے علاوہ کانگریس کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں بھی ڈیمو کریٹس اور ری پبلکنز اُمیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ دونوں جماعتوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ سینیٹ پر کنٹرول حاصل کریں تاکہ نو منتخب صدر کو فیصلہ سازی میں آسانی ہو سکے۔

منگل کو صدارتی انتخاب کے ساتھ 100 رُکنی سینیٹ کی 35 نشستوں پر بھی انتخاب ہوا تھا۔ اب تک کے نتائج کے مطابق کہیں سے ڈیمو کریٹس جب کہ بعض نشستوں پر ری پبلکن پارٹی کے اُمیدوار کامیاب ہوئے ہیں تاہم ریاست نارتھ کیرولائنا اور جارجیا میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔

سب کی نظریں ریاست مین میں ہونے والے سینیٹ الیکشن پر مرکوز تھیں جس میں آخر کار ری پبلکن سینیٹر سوزن کولنز نے اعصاب شکن مقابلے کے بعد ڈیمو کریٹک اُمیدوار سارا گاڈین کو شکست دے دی۔

خیال رہے کہ سوزن کولنز وہ واحد ری پبلکن سینیٹر تھیں جنہوں نے سپریم کورٹ کی جج ایمی کونی بیرٹ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق منگل کو 35 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں سے سات نشستوں پر مقابلہ سخت تھا۔ ری پبلکن پارٹی کے سینیٹ میں 53 جب کہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے 47 اراکین ہیں۔

ڈیموکریٹس کی کوشش تھی کہ وہ خالی ہونے والی بعض ری پبلکن نشستوں کا کنٹرول حاصل کرلیں تاکہ ایوانِ نمائندگان کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں بھی انہیں اکثریت حاصل ہوجائے۔ لیکن اب تک کے نتائج کے مطابق ڈیموکریٹس اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور بظاہر لگتا ہے کہ ری پبلکن سینیٹ میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں پر تنازع، آگے کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:52 0:00

سینیٹ میں کسی بھی جماعت کی اکثریت کا مطلب ہے کہ اس جماعت کے منتخب ہونے والے صدر کو فیصلہ سازی اور دیگر اہم تعیناتیوں کے لیے سینیٹ کی حمایت بھی مل جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتیں سینیٹ میں اکثریت کے حصول کے لیے زور لگا رہی ہیں۔

ریاست الاباما میں ٹرمپ کے حمایت یافتہ ری پبلکن پارٹی کے سینیٹ امیدوار اور سابق فٹ بال کوچ ٹومی ٹیوبر وائل نے ڈیمو کریٹک سینیٹر ڈگ جونز کو شکست دے دی ہے۔

ریاست مونٹانا میں ری پبلکن اُمیدوار اسٹیو ڈائنز دوسری مدت کے لیے سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں۔

آئیووا میں ری پبلکن سینیٹر جونی ارنسٹ تھریسا گرین فیلڈ کو شکست دے کر دوسری مدت کے لیے سینیٹ کا انتخاب جیت گئے ہیں۔

سینیٹ میں اکثریت کے لیے ڈیمو کریٹک پارٹی کو صدر ٹرمپ کی جیت کی صورت میں چار جب کہ جو بائیڈن کے جیتنے کی صورت میں تین مزید نشستیں درکار ہیں۔ کیوں کہ اگر دونوں جماعتوں کے سینیٹ میں 50، 50 اراکین ہوں تو ٹائی کی صورت میں امریکی نائب صدر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

اگرچہ کانگریس کے ایوانِ زیریں یعنی ایوانِ نمائندگان میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے امکانات ہیں مگر وائٹ ہاؤس میں اگلے مکین کے لیے سینیٹ میں اکثریت ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اہم ہوتی ہے۔

سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے اکثریتی رہنما سینیٹر مچ میکونل ریاست کنٹیکی سے ڈیمو کریٹک پارٹی کی اُمیدوار ایمی میک گراتھ کو شکست دے کر ساتویں مرتبہ سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں۔

اپنی فتح کے بعد تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ہم یہ نہیں جانتے کہ کون سا صدارتی امیدوار جنوری میں اپنا دور حکومت شروع کرے گا۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کون سی پارٹی سینیٹ میں کنٹرول حاصل کرے گی۔ مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہمارے سامنے مشکل چیلنجز ہیں۔"

ری پبلکن سینیٹر لنزے گراہم ساؤتھ کیرولائنا سے ڈیمو کریٹک اُمیدوار جیمی ہیری سن کو شکست دے کر دوبارہ سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق جارجیا میں سینیٹ کی دونوں نشستوں کے نتائج سے سینیٹ میں کنٹرول کا فیصلہ ہو سکے گا۔

XS
SM
MD
LG