"انصاف کے لیے پیروی کرنا بھی جرم بن چکا ہے۔ اب گھر سے باہر جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی شخص جذبات میں آ کر گولی نہ مار جائے۔"
یہ الفاظ ہیں توہینِ مذہب کیس میں ایک ملزم کی وکالت کرنے والے وکیل جاوید خان (فرضی نام) کے۔
جاوید خان توہینِ مذہب کے ایک ملزم کے وکیل ہیں اور ملتان میں جنید حفیظ توہینِ مذہب کیس میں وکیل کے قتل کے بعد خوف کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "میں ایک وکیل ہوں میرا کام لوگوں کو انصاف دلوانا ہے، فیصلہ کیا ہو گا یہ عدالت کا کام ہے لیکن کسی شخص کو سنا تو جائے۔ ہم میں برداشت کی کمی اس حد تک ہوگئی ہے کہ ہم کسی کو سننے کو بھی تیار نہیں۔"
صرف جاوید ہی نہیں پاکستان میں بہت سے لوگوں کو توہینِ مذہب کے قانون کے حوالے سے محض بات کرنے میں بھی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال توہینِ مذہب کیس میں سزائے موت پانے والے ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کے ایک وکیل راشد رحمان کو مئی 2014 میں نامعلوم افراد نے ان کے دفتر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔
'پاکستان میں مذہبی اقلیتیں خطرے میں ہیں'
ادھر امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے پاکستان میں توہینِ مذہب کے بڑھتے ہوئے کیسز اور بالخصوص شیعہ مسلمانوں پر ہجوم کی طرف سے مبینہ تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو خطرات کا سامنا ہے اور حکومتِ پاکستان تمام شہریوں کے حقوق کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے۔
تنظیم کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف ہجوم کی طرف سے تشدد کے واقعات کو فوری روکنے کی ضرورت ہے۔
کمیشن کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے کوہاٹ یونیورسٹی میں ایک شیعہ طالب علم کو فیس بک پر مبینہ طور پر توہینِ آمیز کلمات لکھنے پر اس کے ساتھیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور وائس چانسلر کے دفتر کا گھیراؤ کر کے اسے یونیورسٹی سے نکالنے سمیت قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔
کمیشن کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے پولیس کی تحویل میں دیا جہاں اس کے خلاف توہینِ مذہب کے قانون کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی کمیونٹی کے ساتھ مسلک یا مذہب کی بنیاد پر تعصب نہیں برتا جا رہا۔
کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمشنر جونی مور کے مطابق پاکستان کو توہینِ مذہب کے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ قانون میں ترمیم سے قبل توہینِ مذہب کے قانون میں اصلاحات کی جائیں جن میں ضمانت پر رہائی، الزام لگانے والے کی طرف سے مکمل ثبوت، سینئر پولیس افسر کی نگرانی میں تفتیش اور غلط الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
'گارنٹی دیتا ہوں کہ توہینِ مذہب پر تعصب کی بنیاد پر کوئی مقدمہ نہیں'
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی کمیونٹی کے ساتھ تعصب کی بنیاد پر کوئی الگ سلوک نہیں برتا جا رہا۔
حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ اس قسم کے کیسز کے حوالے سے دو، تین مراحل ہیں۔ پہلے مقامی پولیس کی سطح پرتحقیق کی جاتی ہے پھر ایس پی کی سطح پر تصدیق کے بعد معاملہ متحدہ علما بورڈ کے سامنے آتا ہے۔ ان کے ساتھ امن کمیٹیاں بھی اس کام میں معاونت کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں گارنٹی دیتا ہوں کہ ڈیڑھ دو سالوں میں کوئی ایسا کیس تعصب کی بنیاد پر یا سیاسی بنیادوں پر درج نہیں ہوا۔ تاہم جہاں جرم ہو گا وہاں کیسز بھی درج ہوں گے لیکن یہ مقدمات بھی تحقیق کے بعد ہی درج ہوتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کوئی کیس ہو جس کی بنیاد نہ ہو یا پھر اسے تعصب کی بنیاد پردرج کیا گیا ہو تو ایسے کیسز کا جائزہ لیا جائے گا۔
طاہر اشرفی نے کہا کہ دسمبر سے ہم بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے یونین کونسل کی سطح پر تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر بریلوی مکتبۂ فکر کے افراد کے خلاف بھی مقدمات درج ہوئے اور بعض کیسز اہل تشیعہ افراد کے خلاف بھی درج ہیں۔
ہجوم کی طرف سے تشدد اور دباؤ کے ذریعے فیصلے پر انہوں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی ایف آئی آر ہوتی ہے تو متحدہ علما بورڈ اس میں کسی قسم کا دباؤ نہیں لیتا اور قرآن و سنت کے مطابق ہم فیصلہ لیتے ہیں۔
اُن کے بقول ڈیڑھ سال میں ہم نے 104 فیصلے کیے جن میں 95 فی صد کیسز میں ہم نے ریلیف دیا ہے اور میرٹ پر فیصلے دیے ہیں۔ اس میں ہم نے کسی قسم کے دباؤ کو قبول نہیں کیا۔
اُن کے بقول حکومتِ پاکستان اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ تمام شہریوں کے حقوق، حفاظت کو یقینی بنائے، بالخصوص مذہبی اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنائے جنہیں توہینِ مذہب کے سخت قوانین کی وجہ سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
'حکومت ہجوم کے سامنے بے بس ہے'
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ حالیہ عرصے میں توہینِ مذہب کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور بالخصوص محرم میں جو تقاریر ہوئیں ان پر یہ مقدمات درج ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کے حوالے سے لوگوں کی برداشت بہت کم ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ہی توہینِ مذہب کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ایسے میں لوگ خود قانون ہاتھ میں لے کر انصاف کرنا چاہ رہے ہیں۔
زہرہ یوسف کے بقول گزشتہ چند ماہ میں صرف پشاور شہر میں پانچ احمدیوں کا قتل کر دیا گیا۔ ایک شخص کو تو بھری عدالت میں قتل کیا گیا، لیکن کچھ نہیں ہو سکا۔ حکومت کو چاہیے کہ ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔
زہرہ یوسف نے کہا کہ یہ حکومت کی کمزوری ہے کہ ہجوم کی صورت میں آنے والے مذہبی عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کے بجائے ان سے معاہدے کر کے انہیں پیسے دے کر روانہ کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال سے یہ مذہبی گروپس مزید مضبوط ہو رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اگر دیگر طبقات لیڈی ہیلتھ ورکز، مزدور، صحافی یا عام افراد احتجاج کے لیے نکلیں تو اُن پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے، آنسو گیس پھینکی جاتی ہے۔ لیکن کوئی مذہبی گروہ باہر نکلے تو حکومت اس سے معاہدے کرتی ہے جس سے یہ گروپ مزید مضبوط ہو جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے پیغمبرِ اسلام کے خاکے شائع کرنے پر فرانس کے خلاف دھرنا دے دیا تھا جس سے دو روز تک سڑکیں بند رہیں۔
ماضی کی طرح اس بار بھی حکومت نے مذہبی تنظیم سے بات چیت کی اور فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ تسلیم کیا جس کے بعد یہ دھرنا ختم کر دیا گیا۔
اس دوران معاہدے کے مطابق گرفتار ہونے والے تمام افراد کو نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ ان کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہ کیے جانے کی بھی یقین دہانی کروائی گئی۔