رسائی کے لنکس

کوہاٹ یونیورسٹی: توہینِ مذہب کے مبینہ ملزم طالبِ علم کا داخلہ معطل


کوہاٹ یونیورسٹی، فائل فوٹو
کوہاٹ یونیورسٹی، فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر کوہاٹ کی ایک یونیورسٹی کی انتظامیہ نے توہین مذہب کے مبینہ مرتکب طالب علم کا داخلہ معطل کر دیا ہے۔ جب کہ یونیورسٹی میں حالات کشیدہ ہیں اور مذکورہ طالب علم کو حکام کے بقول ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

کوہاٹ کی انجینیئرنگ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پچھلے ستمبر میں ساتویں سمسٹر کے ایک طالب علم کی جانب سے سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹوں پر یونیورسٹی کے دیگر طالب علموں نے اعتراض کیا اور کئی طلباء نے نہ صرف یونیورسٹی کی انتظامیہ بلکہ پولیس کو بھی متعلقہ طالب علم کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمے کے اندراج اور کاروائی کرنے کے لئے رجوع کیا ۔تاہم یونورسٹی انتظامیہ نے فوری طور پر طالب علم اور ان کے والدین سے رابطہ کر کے انہیں یونورسٹی آنے سے روک دیا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق بدھ کے روز جب طالب علم یونیورسٹی میں دیکھا گیا تو بعض طلبا نے اسے کو مارنے اور جلانے کی کوشش کی۔ تاہم انتظامیہ نے فوری طور پر طالب علم کو تحویل میں لے کر اسے کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا، جب کہ بعد میں یونیورسٹی کی اعلی اختیاراتی انتظامی کمیٹی نے ہنگامی اجلاس منعقد کرکے طالبعلم کا داخلہ منسوخ کر دیا۔

یونیورسٹی کے ترجمان ذیشان بنگش نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالب علم کے والدین کو بلا کر انہیں کسی اور یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے میں میں داخلہ دلوانے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

پشاور کی ایک عدالت میں توہین مذہب کے ایک مبنہ ملزم کی فائرنگ میں ہلاکت کے بعد پولیس متحرک ہے۔ جولائی 2020
پشاور کی ایک عدالت میں توہین مذہب کے ایک مبنہ ملزم کی فائرنگ میں ہلاکت کے بعد پولیس متحرک ہے۔ جولائی 2020

انسانی حقوق کمشن آف پاکستان کے مرکزی ممبر کامران عارف ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب تک ٹھوس ثبوت نہ ہو، باقاعدہ مقدمہ درج نہ کیا گیا ہو، تب تک یونیورسٹی انتظامیہ کو اس قسم کے اقدامات نہیں کرنے چاہیئں۔

ابھی تک طالب علم کے والد یا دیگر کسی رشتہ دار نے یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جب کہ کوہاٹ پولیس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ روزنامچے کے بنیاد مقدمہ پہلے ہی سے درج کیا جا چکا ہے اور تفتیش کی جا رہی ہے۔

ادھر پشاور کے نواحی علاقے میں پولیس نے ایک مقامی شاعر اور سیاسی کارکن کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں حراست میں لیا ہے۔

ملزم صمد خلیل کو ایک مقامی عدالت میں پیش کر کے ان کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔ مقدمے کے مطابق صمد خلیل نے سوشل میڈیا پر 29 جولائی کو پشاور کی ایک عدالت کے اندر توہین مذہب کے الزامم ایک زیر حراست امریکی نژاد باشندے کو گولیاں مار کر قتل کرنے، جب کہ خوشاب میں ایک سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں ایک بینک منیجر کو بھی توہین مذہب کے الزام میں قتل کے واقعات کی مذمت کی تھی۔

وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی امور علامہ طاہر اشرفی نے بھی خوشاب میں بینک منیجر کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

پچلھے کئی مہینوں سے ملک بھر میں توہین مذہب یا مذہبی منافرت کی بنیاد پر قتل اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG