پاکستان میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس نے مبینہ طور پرمشال خان پر گولی چلائی تھی۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان کی پولیس کے اعلیٰ عہدیدار عالم خان شنواری نے جمعرات کو مردان میں پریس کانفرنس کے دوران گرفتار کیے جانے والی ملزم کا نام عمران بتایا اور کہا کہ وہ مشال کا کلاس فیلو تھا۔
"دو (ملزموں کے) اقبالی بیان جو آئے ہیں اس میں انہوں نے فائر کرنے والے کا نام عمران بتایا۔۔۔ وہ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم ہے اور ہم نے اس کو گرفتار کرنے کے لیے ٹیمیں مقرر کی ہوئی تھیں اور میں یہ آپ کو بتا دوں کہ اس کو ہم نے گرفتار کر لیا ہے۔"
عالم خان نے مزید کہا کہ عمران کو جمعرات کو مردان سے گرفتار کیا گیا۔
اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کی طرف سے پاکستان کی عدالت عظمٰی کو بتایا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کے مقدمے کی تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی ازسر نو تشکیل کی گئی ہے۔
صوبائی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ کو مشال خان کے قتل سے متعلق اب تک ہونے والی تفتیش سے بھی آگاہ کیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ازسر نو تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیم میں فوج کے انٹیلی جنس اداروں ’آئی ایس آئی‘ اور ملٹری انٹیلی جنس کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں جرنلزم کے طالب علم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام پر مشتعل افراد نے 13 اپریل کو یونیورسٹی ہی میں بدترین تشدد کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مشال کے قتل کا از خود نوٹس لیا تھا اور صوبائی پولیس کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ اس بارے میں تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت سے عدالت کو آگاہ رکھے۔
جمعرات کو اسی سلسلے میں صوبائی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی طرف سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی۔
جس میں بتایا گیا کہ اب تک 36 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
عدالت عظمٰی نے اب تک تحقیقات کے دوران ہونے والے شواہد مزید تجزیے کے لیے لاہور میں قائم ’فرانزک لیبارٹری‘ میں بجھوانے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ مشال خان اور اُن کے دو دیگر ساتھیوں عبداللہ اور زبیر پر جو الزامات لگے اُن کے بارے میں شواہد نہیں ملے ہیں۔
جب کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ مشال خان کے خلاف ’سازش‘ کی گئی۔