امریکہ نے پاکستان میں ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری کو کمرہ عدالت میں قتل کرنے کے واقعہ کی مذمت کی ہے۔
امریکی ریاست الی نوائے کے رہائشی 47 سالہ طاہر احمد نسیم کو بدھ کے روز پشاور کے ایک کمرہ عدالت میں سماعت کے دوران جج کے سامنے کئی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
نسیم پر اس الزام میں مقدمہ چل رہا تھا کہ اس نے اسلام کا پیغمبر ہونے کا دعوی کیا تھا۔ پاکستان کے توہین مذہب قانون کے تحت اس جرم کی سزا موت مقرر ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے بدھ کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں ایک پاکستانی عدالت کے اندر امریکی شہری طاہر نسیم کے قتل پر صدمہ اور دکھ ہوا ہے۔
طاہر احمد نسیم کے خلاف 2018 سے اس وقت سے عدالتی کارروائی جاری تھی جب انہیں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر عائد الزام میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے فیس بک پر پاکستان میں اپنے دوستوں کے ساتھ آن لائن مکالمے میں یہ دعوی کیا تھا کہ وہ خدا کے آخری پیغمبر ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ نسیم کو الی نوائے میں واقع اپنے گھر سے کچھ افراد کی جانب سے ورغلا کر پاکستان بلایا گیا اور پھر انہیں پاکستان کے توہین مذہب کے قانون میں پھنسا دیا گیا۔
بیان میں یہ ذکر کرتے ہوئے کہ امریکی حکومت انہیں اور ان کے خاندان کو وکیل کی خدمت فراہم کر رہی تھی، اعلیٰ پاکستانی عہدے داروں کی توجہ اس مقدمے کی جانب مبذول کراتے ہوئے اس نوعیت کے شرم ناک المیے روکنے پر زور دیا ہے۔
پاکستانی پولیس نے فوری طور پر نوجوان قاتل کو حراست میں لے لیا، جس نے بعد ازاں نسیم کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ اس نے یہ قتل اسلام کے ایک دشمن کا کیا ہے جس نے مذہب کی توہین کی تھی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم مسٹر نسیم کے خاندان کے غم میں شریک ہیں۔ ہم پاکستان پر یہ زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اپنے توہین مذہب قانون اور عدالتی نظام میں اصلاحات کرے جس کا اکثر اوقات غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور یہ یقینی بنایا جائے کہ مشتبہ شخص پر قانون کا مکمل اطلاق کیا جائے۔
جب عدالت میں توہین مذہب کے مقدمے کی سماعت ہو رہی ہو تو پاکستان میں اس مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر عموماً سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے کہ آخر قاتل کس طرح عدالت میں ہتھیار لانے میں کامیاب ہوا۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے امریکی سفیر سیم براؤن بیک نے کہا ہے کہ انہیں اس خبر پر تشویش ہوئی ہے کہ ایک امریکی شہری کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ اپنے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت میں کھڑا تھا۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ہم پاکستان کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور کمرہ عدالت میں سیکیورٹی کی کوتاہیوں کی تحقیقات کی جائیں گی۔
پاکستان کے توہین مذہب کے قانون سے منسلک اس تازہ ترین واقعہ نے حکومت پر ایک بار پھر اس دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے کہ وہ اس قانون میں اصلاحات کرے تاکہ اس کے غلط استعمال اور اس نوعیت کے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔ لیکن اس سے قبل کی حکومتوں کی جانب سے اس قانون میں ترمیم کی کوششیں اسلامی گروپس کے دباؤ کے باعث ناکام ہو گئی تھیں۔
مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بااثر افراد کی جانب سے مذہبی اقلتوں کے خلاف جذبات بھڑکانے اور مخالف مسلم گروپس کے افراد سے حساب چکانے کے لیے اکثر اوقات توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے مبینہ الزام کی بنا پر درجنوں افراد قتل کیے جا چکے ہیں۔ بعض واقعات میں توہین مذہب کے مبینہ الزامات پر منسلک افراد کو ہجوم کے غیض و غضب کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ توہین مذہب کے قانون کا نشانہ بننے والوں میں اساتذہ، وکیل، ڈاکٹر اور ہائی پروفائل سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں۔