پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بعض مذہبی معاملات پر جنم لینے والے تنازعات عالمی توجہ کا بھی مرکز بن رہے ہیں۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا تنازع ہو یا وزیر اعظم عمران خان کا پارلیمنٹ میں اُسامہ بن لادن کو شہید قرار دینا یہ واقعات ابھی موضوع بحث تھے ہی کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی نے 'تحفظِ بنیادِ اسلام' کے نام سے ایک بل منظور کر لیا جس پر نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
بعض امریکی سیاست دان اور تجزیہ کار بھی پاکستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران پیش آنے والے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی عدم برداشت کی ایک کڑی قرار دے رہے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستانی معاشرے کو انتہاپسندی اور عدم برداشت سے پاک کر کے معتدل ریاست بنانے کے ریاستی بیانیے کی بھی نفی ہو رہی ہے۔
البتہ پاکستان کی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے موثر اقدامات کیے گئے ہیں اور تمام مکاتیب فکر کی رائے لے کر ہی قانون سازی کی جاتی ہے۔
پنجاب اسمبلی نے گزشتہ ہفتے 'تحفظِ بنیادِ اسلام' کے عنوان سے ایک مسودۂ قانون کثرتِ رائے سے منظور کیا تھا جس میں دینِ اسلام، پیغمبرِ اسلام اور دیگر اہم مذہبی شخصیات کی عزت و ناموس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانین پر بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکی ادارے برائے امن ( یونائٹڈ اسٹیٹس فار پیس) میں دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اراکین کانگریس اور ماہرین نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے جب کہ مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بھی صورتِ حال خراب ہے۔
امریکی ریاست نیویارک سے تعلق رکھنے والے امریکی رکنِ کانگریس ٹام سوزی نے کہا کہ دنیا بھر میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مہینے میں اُنہیں ممنوع گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ ٹام سوزی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خاص طور پر دونوں کے زیرِ انتظام کشمیر میں لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر سزائیں دی جا رہی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ احمدیوں کے لیے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں۔ لوگوں کو اس لیے سزائیں دی جا رہی ہیں کہ اُن کا مذہب دوسروں سے مختلف ہے۔
مباحثے میں شریک امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن رُکن کانگریس جان مولینار نے کہا کہ آج دُنیا کے بڑے مسائل میں عدم برداشت اور مذہبی آزادیاں بھی شامل ہیں۔
اُن کے بقول کسی بھی ملک میں امن و امان کا قیام مذہبی رواداری اور باہمی احترام سے مشروط ہے۔
امریکہ کے 'دی وِلسن سینٹر' کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستان کے لیے حالیہ چند ہفتے مذہبی تنازعات کی وجہ سے اچھے نہیں رہے۔
اُن کے بقول اسلام آباد میں مندر کی تعمیر روکنے، وزیر اعظم کے اُسامہ بن لادن کو شہید کہنے اور اب پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا بل اسلام آباد کے بیانیے کی نفی کر رہا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست بن چکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مذہب اور جمہوریت دو الگ، الگ معاملات ہیں اور یہ دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرہ پہلے ہی ایک منقسم معاشرہ ہے۔ لہذٰا مذہبی معاملات پر قانون سازی سے معاشرے میں مزید تقسیم پیدا ہو گی۔
اُن کے بقول جب لوگ مطمئن نہیں ہوتے تو امن و امان کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور انتہا پسندی بڑھتی ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ امریکی سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے پاکستان سے متعلق خدشات میں وزن ہے۔ اگر ریاست نے اپنی پالیسی نہ بدلی تو پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے خارجہ محاذ میں چند مہینوں کے دوران کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دنیا میں پاکستان کو ایک روشن خیال ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فواد چوہدری کے بقول پاکستان نے جس طرح افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کردار ادا کیا، دنیا اسے قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔
فواد چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان نے سکھ برادری کی سہولت کے لیے کرتارپور راہداری کھولی جب کہ دیگر اقلیتوں کو بھی حقوق حاصل ہیں اور اُنہیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی مکمل آزادی ہے۔
لیکن فواد چوہدری بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی سے پاکستان کا امیج متاثر ہو سکتا ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اُن کی پنجاب اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی سے متعلق گورنر چوہدری سرور سے بات ہوئی ہے۔ اُن سے کہا ہے کہ پنجاب تو پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے۔ یہ بابا بلھے شاہ کی سرزمین ہے، یہ تو ہیر رانجھا کی سر زمین ہے۔ اِس کو آپ کس طرف لے جا رہے ہیں۔ اس سے تو بڑا نقصان ہو گا۔
ترجمان وزیراعلٰی پنجاب اور رکن پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ کی رائے میں اُن کی حکومت ملک بھر میں مذہبی ہم آہنگی کو بڑھانا چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ تحفظِ بنیادِ اسلام بل سے متعلق جس مسلک کو بھی تحفظات ہیں انہیں دُور کیا جائے گا۔
مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار نے مسالک کے تحفظات دُور کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی بھی علما سے بات ہوئی ہے تو بل کے سلسلے میں ہر طبقے کے خدشات کو سنا جائے گا۔
توہین مذہب کے نام پر قتل اور احمدیوں کو قربانی کی اجازت نہ دینے کی چٹھی
دریں اثنا پشاور کی ایک عدالت میں بدھ کو توہین مذہب کے الزام میں پیشی پر آئے ملزم کے بھری عدالت میں قتل پر بھی مختلف تنظیموں کی جانب سے مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانین ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
ادھر لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے منگل کو پاکستان کی وزارتِ داخلہ کو لکھی گئی ایک چٹھی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت احمدی غیر مسلم ہیں اور اُنہیں پاکستانی قوانین کے تحت عیدلااضحٰی کے موقع پر قربانی سے روکا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر چوہدری طاہر نصراللہ وڑائچ کی جانب سے وزارتِ داخلہ کو لکھی گئے خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت احمدیوں کو جانوروں کی قربانی سے روکنے کے لیے پولیس کو ہدایات جاری کرے۔
پاکستان میں احمدی جماعت کے ترجمان سلیم الدین نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے لکھے گئے مبینہ خط کی مذمت کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہی وہ معاملات ہیں جن سے معاشرے میں عدم برداشت اور مذہبی منافرت جنم لیتی ہے۔ اُن کے بقول خصوصاً پنجاب میں صورتِ حال زیادہ خراب ہو رہی ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کا آئین ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ چار دیواری کے اندر رہ کر اپنے مذہبی فرائض سرانجام دے سکتا ہے۔