رسائی کے لنکس

پروفیسر ہودبھائے تعلیمی اور تدریسی معیار پر پورے نہیں اترتے؟


فزکس اور ریاضی کے ممتاز پروفیسر پرویز ہودبھائے نے لاہور کے فورمین کرسچن کالج کی انتظامیہ کے رویے سے خفا ہو کر بطور احتجاج استعفا دے دیا ہے۔

جمعہ کو کالج کی انتظامیہ کے نام استعفے میں پروفیسر پرویز ہودبھائے نے لکھا کہ وہ اس لیے استعفا دے رہے ہیں، کیونکہ کالج کے ریکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایف سی کالج کے تعلیمی یا تدریسی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ ریکٹر کے بقول، اکیڈمک اسٹینڈرڈ کمیٹی نے اس کی سفارش کی تھی جس سے وہ متفق ہیں۔

پروفیسر ہودبھائے نے کہا کہ اگر ایسا کوئی اجلاس ہوا بھی تھا تو انھیں اس سے لاعلم رکھا گیا اور وضاحت کا موقع نہیں دیا گیا۔ گزشتہ 8 سال میں کسی نے انھیں اس بارے میں نہیں بتایا۔ جب انھوں نے اپنی قابلیت اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنانے کی درخواست دی تو ریکٹر نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ انھیں اس بارے میں فیصلہ کرنے کا تنہا اختیار ہے۔

پروفیسر ہودبھائے نے لکھا کہ وہ کالج کے ڈسٹنگوئشڈ پروفیسر تھے۔ اگر ان کے ساتھ ایسا نامناسب سلوک روا رکھا گیا ہے تو عام اساتذہ کے ساتھ اچھے سلوک کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟

انھوں نے کہا کہ انھیں کالج کی انتظامیہ کے رویے سے گہرا دکھ پہنچا ہے۔ دوسری جانب وہ اساتذہ اور طلبہ سے خوش ہیں جنھوں نے ہمیشہ ان کے کام میں دلچسپی لی اور جب بھی انھوں نے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے تو آڈیٹوریم بھرے ہوئے ملے۔

پروفیسر ہودبھائے کا کہنا تھا کہ 2013 میں جب انھیں کالج نے ملازمت کی پیشکش کی تو وعدہ کیا تھا کہ انھیں تین سے زیادہ کورسز پڑھانے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ لیکن، حالیہ ای میل میں ریکٹر نے مضحکہ خیز طور پر انھیں سات کورسز پڑھانے کے لیے کہا۔

کالج انتظامیہ نے ان سے کہا تھا کہ وہ فاصلاتی تعلیم شروع کریں اور اس غرض سے فنڈز بھی جمع کریں۔ پروفیسر ہودبھائے نے کہا کہ انھوں نے امریکہ سے فنڈز جمع کرکے اسٹوڈیو قائم کیا اور ڈیڑھ سو لیکچرز ریکارڈ کرکے فراہم کیے جو ایف سی کالج کے لیے ان کے مستقل تعاون کی صورت میں موجود رہیں گے۔ ان کے تعلیمی اور تدریسی معیار کو تسلیم نہ کرکے ریکٹر نے جان بوجھ کر نابینا ہونے کا تاثر دیا ہے۔

پروفیسر ہودبھائے نے ایم آئی ٹی سے نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کے علاوہ ان غیر ملکی جامعات کی فہرست بھی دی جن میں انھیں پڑھانے کی دعوت ملی، جو اعزازات ملے، دنیا کے بڑے دانشوروں میں شمار کیے گئے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو مشاورت فراہم کی۔

پروفیسر ہودبھائے نے کہا کہ انھیں اس لیے سزا دی جارہی ہے کیونکہ وہ مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ لیکن میں ایف سی کالج کے لوگوں کے مفاد میں خوشی سے اس سزا کو بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔

پروفیسر ہودبھائے کا کہنا تھا کہ وہ ایف سی کالج کے ساتھ اپنی وابستگی کا ناخوشگوار انجام نہیں چاہتے تھے، لیکن یہ ان کا انتخاب نہیں ہے۔ انھوں نے کوشش کی کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن، انجام کار تسلیم کرنا پڑا کہ یہی حقیقت ہے جو انھیں آزاد کرے گا۔

پروفیسر ہودبھائے کے استعفے سے دو ہفتے پہلے ایف سی کالج نے ایک اور استاد پروفیسر عمار علی جان کا کنٹریکٹ ختم کردیا تھا۔

عمار علی جان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس سال کے شروع تک وہ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ پھر معاہدہ تبدیل کرکے انھیں وزیٹنگ فیکلٹی قرار دیا گیا۔ لیکن اب ان کا یہ نسبتاً کم درجہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھیں نوکری سے نکالا گیا ہے۔ کالج کے ریکٹر نے ان سے کہا تھا کہ وہ فوری طور پر تمام سیاسی سرگرمیاں بند کردیں، کیونکہ ان کا ادارہ "حساس" صورتحال کا شکار ہے اور متنازع نہیں ہوسکتا۔

پاکستان میں پروفیسر ہودبھائے اور عمار علی جان کے علاوہ بھی کئی "روشن خیال" اساتذہ سے کالج اور یونیورسٹیاں معذرت کررہی ہیں یا انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔

ناول نگار محمد حنیف نے حال میں ایک ٹوئیٹ کے ذریعے بتایا کہ کراچی کی حبیب یونیورسٹی نے انھیں باہر کا راستہ دکھایا ہے۔ انھوں نے وہاں چند سیمسٹر پڑھائے تھے اور انھیں یہ کام پسند آنے لگا تھا۔ وہ اب اپنے طلبہ کو یاد کریں گے۔

سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر عرفانہ ملاح بھی حال میں ایک تنازع کا شکار ہوچکی ہے جب انھوں نے توہین مذہب کو کالا قانون قرار دیا اور اس کے بعد انھیں انتہاپسندوں کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تنازع کا انجام ان کے معافی مانگنے پر ہوا۔

XS
SM
MD
LG