رسائی کے لنکس

قابل اعتراض مواد کی بنیاد پر پنجاب میں 100 درسی کتب پر پابندی


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پنجاب میں درستی کتب کے اشاعتی سرکاری ادارے ٹیکسٹ بک بورڈ نے اسلام اور پاکستان مخالف مواد کی بنیاد پر نجی پبلشرز کی 100 سے زائد کتب پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور کیمبرج سمیت 31 پبلشرز کی درستی کتب شامل ہیں۔

یہ پابندی ایسے وقت میں لگائی گئی جب چند روز قبل پنجاب اسمبلی نے 'تحفظ بنیاد اسلام بل' منظور کیا ہے جس میں پیغمبر اسلام، مقدس شخصیات اور پاکستان سے متعلق قابل اعتراض مواد پر پابندی لگانے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔

پابندی کا اعلان پنجاب 'کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ' کے منیجنگ ڈائریکٹر رائے منظور ناصر نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ بورڈ نے 10 ہزار کتب پرائیویٹ اسکولوں سے اکٹھی کی ہیں جس پر بورڈ کی جانب سے بنائی گئی 30 کمیٹیاں ان کتب کے مواد کا جائزہ لے رہی ہیں۔

منظور ناصر کے مطابق صوبے کے نجی اسکولوں میں ملک اور مذہب کے خلاف پڑھایا جا رہا ہے، لہذٰا ان کتب کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا گیا۔

اُن کے بقول اسلام، قومی سلامتی اور امن کے خلاف مواد پر مبنی کتاب پر پابندی ہو گی۔

منظور ناصر کا کہنا تھا کہ کئی کتب میں کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے جب کہ کئی کتب میں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش بھی غلط درج ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نجی اسکولوں کی کئی کتب میں مہاتما گاندھی کے اقوال پڑھائے جا رہے ہیں۔

رائے منظور ناصر کا کہنا تھا کہ قومی ہیروز، اسلام، ملکی سلامتی، امن عامہ اور اخلاقیات کے خلاف کچھ بھی شائع نہیں ہو سکتا، لہٰذا قانون کے مطابق یہ پانچ چیزیں غلط ہونے پر کتاب پر پابندی ہو گی۔

رائے ناصر نے کہا کہ بھارت کے خلاف پاکستان کا جھگڑا کشمیر کا ہے جب کہ بعض کتب میں کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے یہاں تک کہ غزوہ احد کے بارے میں بھی بے شمار ناقابل برداشت باتیں شائع ہیں۔

ایم ڈی پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے الزام لگایا کہ آکسفورڈ پریس کی بیشتر کتابوں میں پاکستان کو خراب ملک بتایا گیا ہے اور بھارت کو پاکستان سے بہت بہتر دکھایا گیا ہے جب کہ کیمبرج کی شائع کردہ کتب میں بچوں کو انتہا پسندی کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

اُنہوں نے واضح کیا کہ کوئی نجی اسکول قانون کی منظوری کے بغیر ان کتب کو استعمال نہیں کر سکتا، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔

رائے منظور ناصر کا کہنا تھا کہ اب پنجاب اسمبلی نے باقاعدہ طور پر قانون منظور کر لیا ہے، لہذٰا اس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔

ماہر تعلیم اور مصنفہ ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ کہتی ہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے اُن کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ کتب کے مواد سے متعلق تمام فیصلے اب علما کریں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عارفہ سید نے کہا کہ اُنہیں بہت افسوس ہوا جب اُنہوں نے یہ پڑھا کہ تحفظ بنیاد اسلام بل کے تحت اب کتب کی جانچ پڑتال ہو گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ آج آپ دوسرے ملکوں یا اُن کے رہنماؤں کی باتیں کتب سے حذف کر رہے ہیں تو کل کو وہ بھی آپ کے ملک اور عظیم شخصیات کا تذکرہ چھوڑ دیں گے۔

ڈاکٹر عارفہ نے کہا کہ علم اعتماد بڑھاتا ہے اور جتنا علم کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اُتنا ہی اعتماد کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ تقابلی مطالعے سے لوگوں کی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کہاں آگے اور ہم کہاں پیچھے ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ جنہوں نے یہ کام کیا ہے اُن کی کیا ترجیحات ہیں یہ اُنہی کو معلوم ہے۔ اِس کا مطلب یہ کہ وہ سوچ پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔

عارفہ سید کے بقول "غلطی ایک کتاب میں ہو سکتی ہے دو میں ہو سکتی ہے لیکن اچانک سو کتابوں کو رد کر دیا گیا ہے۔ کیا اب ہر کتاب کا فیصلہ علما اتحاد بورڈ کرے گا۔"

اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا اب ہم سارے فیصلے جذبات کی بنیاد پر کریں گے، کیا اب ہم نہ منٹو پڑھیں گے اور نہ ہی غالب؟

تحفظ بنیاد اسلام بل میں کیا ہے؟

بل میں کہا گیا ہے کہ جہاں بھی پیغمبر اسلام کا ذکر آئے گا وہاں ان کے نام کے ساتھ خاتم النبین (آخری نبی) اور صلی اللہ علیہ و سلم لکھنا لازمی ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق پیغمبرِ اسلام، اہل بیت، خلفائے راشدین اور صحابہ کے بارے میں توہین آمیز کلمات قابل گرفت ہوں گے۔

اسی طرح انبیا، فرشتوں، تمام الہٰامی کتب قرآن مجید، زبور، تورات، انجیل اور دینِ اسلام کے بارے میں متنازع اور توہین آمیز الفاظ پر بھی قانون حرکت میں آئے گا۔

پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے مطابق توہینِ مذہب سے متعلق کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ تعزیراتِ پاکستان کی مروجہ دفعات کے تحت بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ مختلف کتب میں مذاہب خصوصاً اسلام کے بارے میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت کی روک تھام ہو گی۔

بل کی منظوری کے بعد توہین آمیز یا گستاخانہ مواد کا مکمل طور پر تدارک ممکن ہو سکے گا۔ اس بل کی منظوری کے بعد ایسی کتب یا کوئی مواد جس میں پیغمبر اسلام، صحابہ، خلفائے راشدین، اہل بیت اور دیگر مقدس شخصیات کی توہین کا پہلو ہو اس کی اشاعت یا تقسیم پر پابندی ہو گی۔

XS
SM
MD
LG