رسائی کے لنکس

طلبہ کو دہشت گردی پر اُکسانے کا الزام، بھارتی کشمیر میں 3 اساتذہ گرفتار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں طلبہ کو دہشت گردی پر اُکسانے کے الزامات کے تحت تین اساتذہ کو 'پبلک سیفٹی ایکٹ' (پی ایس اے) کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی ضلع شوپیاں کے ایک تعلیمی ادارے جامع سراج العلوم کے تین اساتذہ کے خلاف پی ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کو بھارتی کشمیر میں بغیر مقدمہ چلائے تین ماہ سے دو سال تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے تحت نظر بندی کو عام عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

پولیس افسر وجے کمار نے سری نگر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ مذکورہ تعلیمی ادارے کا ایک طالب علم سجاد بٹ اُن 13 دہشت گردوں میں شامل تھا جنہوں نے گزشتہ سال ضلع پلوامہ میں سنٹرل ریزرو فورس کے قافلے پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس خود کش حملے میں 40 سے زائد سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس مزید چھ اساتذہ کی نگرانی کر رہی ہے اور ضرورت پڑنے پر کالعدم جماعتِ اسلامی کی نگرانی میں چلائے جا رہے اس ادارے کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ پہلے ہی ہماری نظر میں تھا۔ اگر ضرورت پڑی تو اسکول کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

تاہم پولیس اور جماعت اسلامی کے ذرائع نے بتایا کہ جن تین اساتذہ عبدالاحد بٹ، رؤف بٹ اور محمد یوسف وانی پر پی ایس اے لگایا گیا انہیں علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران کئی ماہ پہلے ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے گزشتہ سال فروری میں جماعت اسلامی پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی تھی۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جامع سراج العلوم کے کئی طلبہ کا تعلق جنوبی اضلاع شوپیاں، کلگام، پلوامہ اور اننت ناگ سے ہے اور ان علاقوں میں کشمیری علیحدگی پسند برہان وانی کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پرتشدد ہنگامے ہوئے تھے۔

حکام کے بقول ان علاقوں میں اب بھی حزب المجاہدین، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، البدر جیسی تنظیمیں سرگرم ہیں جب کہ کئی مشتبہ عسکریت پسندوں کو مختلف آپریشنز میں ہلاک بھی کیا گیا ہے۔

جامعہ سراج العلوم ٹرسٹ کے چیئرمین محمد یوسف منٹو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نہ یہ ادارہ جماعتِ اسلامی چلاتی ہے اور نہ اس کے ماتحت کام کرنے والے ادارے سے منسلک اساتذہ یہاں پڑھاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جن طلبہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عسکری تنظیموں میں شامل ہوگئے ہیں دراصل ان کی تعداد تیرہ نہیں گیارہ ہے۔ وہ اس ادارےکے طلبہ ضرور رہ چکے ہیں لیکن یہاں سے فارغ ہونے کے کئی سال بعد اُنہوں نے ہتھیار اُٹھایا۔

پی ایس اے کیا ہے؟

بھارتی کشمیر میں 1978 سے نافذ پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر مقدمہ چلائے بغیر دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلینج کیا جا سکتا ہے۔ نیز ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے۔

اس قانون کو جب بیالیس سال پہلے جموں و کشمیر میں پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا تو اُس وقت کشمیر کے قد آور سیاست دان شیخ محمد عبداللہ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ اُس وقت کہا گیا تھا کہ ریاست میں جنگلات سے لکڑی کی غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ کے سدِباب کے لیے اس طرح کے سخت گیر قانون کا موجود ہونا ناگزیر ہے۔ تاہم بھارتی کشمیر میں یہ شکایات عام ہیں کہ اس قانون کو سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG