رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر سے سیکیورٹی اہلکاروں کی واپسی، کیا 'امن' قائم ہو گیا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک سال سے زائد عرصے سے تعینات اضافی سیکیورٹی فورسز کی واپسی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ تاہم سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے فوجی انخلا کہنا غلط ہو گا۔

بھارت کی حکومت نے گزشتہ برس کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد اضافی دستے تعینات کیے تھے۔ سیکیورٹی دستوں میں شامل 10 سے 13 ہزار تک نیم فوجی دستوں اور مسلح پولیس اہلکاروں کی واپسی ہو رہی ہے۔

اضافی سیکیورٹی فورسز کی واپسی کا عمل ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب وادی میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے واقعات آئے روز پیش آتے رہتے ہیں۔

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے گزشتہ ہفتے جموں و کشمیر کے متعلقہ حکام کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ علاقے کی مجموعی امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد وفاقی سیکیورٹی فورسز کی 100 کمپنیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جن اضافی فورسز کی واپسی شروع ہو گئی ہے یا ہونے والی ہے ان میں سے چالیس کمپنیاں سینٹرل ریزرو پولیس فورس ﴿سی آر پی ایف﴾ اور بیس بارڈر سیکیورٹی فورس ﴿ بی ایس ایف﴾، سنٹرل انڈسٹریز سیکیورٹی فورس ﴿سی آئی ایس ایف﴾ اور سشترا سیما بل ﴿ایس ایس بی﴾ کی ہیں۔

مذکورہ کمپنیوں کے تمام اہلکار سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ حساس وادیٴ کشمیر میں تعینات رہے ہیں۔

یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے براہِ راست وفاق کے زیرِ اثر علاقوں کا درجہ دینے کے اقدام سے پہلے ساٹھ ہزار سے زائد اضافی نیم فوجی دستوں اور مسلح پولیس اہلکاروں کو ملک کی مختلف ریاستوں سے وادیٴ کشمیر اور جموں کے علاقوں میں تعینات کیا تھا۔

وادی میں اضافی دستوں کی تعیناتی ممکنہ طور پر مزاحمت کے خدشے کے پیشِ نظر کی گئی تھی۔ اگرچہ ریاست کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور اسے تقسیم کرنے کے خلاف ابتدا میں وادی کے چند علاقوں میں عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور اس دوران تشدد کے واقعات بھی پیش آئے۔ لیکن حکام نے شورش کو پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

سیکیورٹی ماہر اور جموں و کشمیر کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس شیش پال وید نے اضافی سیکیورٹی اہلکاروں کی واپسی کو معمول کا ایک عمل قرار دیا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کشمیر میں گزشتہ ایک سال کے دوران امن و امان کا کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ حکام کو خدشہ تھا کہ اس موسم گرما کے دوران حالات خراب ہو سکتے ہیں لیکن غالباً کرونا وائرس کی وجہ سے سب کچھ ٹھیک ہی رہا۔

اُن کے بقول، "میرے خیال سے سیکیورٹی فورسز کی ضرورت ملک کے باقی حصوں میں ہے اس لیے انہیں یہاں سے واپس بلایا جا رہا ہے۔"

بھارتی وزارتِ داخلہ نے دسمبر 2019 میں وفاقی آرمڈ پولیس فورسز اور نیم فوجی دستوں کی 72 اور رواں برس مئی میں 10 کمپنیوں کو جموں و کشمیر سے واپس بلا کر ملک کے مختلف حصوں میں تعینات کیا تھا۔

جموں کشمیر میں آئینی تبدیلی کا ایک سال مکمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

وزارتِ داخلہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ جموں و کشمیر میں ایک سال پہلے پہنچائی گئی سیکیورٹی فورسز کی باقی ماندہ اضافی نفری فی الحال علاقے میں ہی ڈیوٹی انجام دیتی رہے گی۔ اُنہیں واپس بلانے یا نہ بلانے کا فیصلہ ستمبر میں ہونے والی ایک اور جائزہ میٹنگ کے دوران کیا جائے گا۔

شیش پال وید نے کہا کہ چونکہ جموں و کشمیر میں امن و امان کی صورتِ حال تسلی بخش ہے ۔لہٰذا وہ نہیں سمجھتے کہ اضافی دستوں کو علاقے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بٹھا کر حکومت یا ملک کو کوئی فائدہ حاصل ہو گا۔

ان کے بقول متعلقہ حکام کو زمینی صورتِ حال کا مسلسل جائزہ لینا چاہیے۔ گزشتہ برس 5 اگست کے بعد جموں و کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی ضرورت تھی اور اب جب کہ حالات ٹھیک ہیں تو اس پورے معاملے کا ایک جامع اور فعال جائزہ لیا جانا چاہیے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر سے واپس بلائے جانے والی سیکیورٹی فورسز کو ریاستِ بہار میں تعینات کیا جائے گا۔ جہاں اس سال اکتوبر میں صوبائی اسمبلی کے لیے عام انتخابات ہونے والے ہیں۔

بہار بالخصوص اس کے ایسے علاقوں میں جہاں نکسل وادیوں کا اثر و نفوذ ہے۔ وہاں انتخابات کے دوراں تشدد پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے درجنوں واقعات پیش آ چکے ہیں۔

گزشتہ ہفتے شمالی ضلع بانڈی پور کے علاقے کریری میں پولیس پارٹی پر اچانک ہونے والے حملے کے بعد حملہ آوروں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تقریباً 30 گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی میں تین عسکریت پسند اور دو بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

عسکریت پسندوں کے ابتدائی حملے میں تین پولیس اہلکار بھی مارے گئے تھے۔

پولیس اور بھارتی فوج کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس جھڑپ کے دوران ہلاک ہونے والے تین عسکریت پسندوں میں کالعدم لشکرِ طیبہ کا ایک اعلیٰ کمانڈر سجاد احمد میر عرف سجاد حیدر شامل تھا جو سیکیورٹی فورسز اور ان کے ٹھکانوں پر حملوں کے علاوہ 8 جولائی کو بانڈی پور میں بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقامی لیڈر شیخ وسیم باری اور ان کے والد اور بھائی کے قتل کے واقعے میں بھی ملوث تھا۔

بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے حالیہ جھڑپ میں مارے جانے والے لون اور میر کی ہلاکتوں کو سیکیورٹی فورسز کی شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف 'جنگ' کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔

انہوں نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ 7 ماہ کے دوران عسکری تنظیموں کے 26 اعلیٰ کمانڈروں کو ہلاک کیا ہے۔ اس طرح سیکیورٹی فورسز عسکری گروہوں کی قیادت کے ڈھانچے کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG