پاکستان کے صوبہ خيبر پختونخوا کے ضلع چترال ميں قديم تہذيب کا حامل کالاش قبيلہ اپنی منفرد ثقافت، رسومات، روايات اور تہواروں کے لحاظ سے مشہور ہے۔
یہ قبیلہ سال کے آخر میں تہوار 'چاوموس' مناتا ہے جس میں کچھ لوگ صبح سويرے اونچے ٹيلے کا رُخ کرتے ہيں تاکہ سورج کے طلوع ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے ديکھ سکيں۔
عمران کبير بھی ان چند لوگوں ميں سے ايک ہيں جو 22 دسمبر 2019 کی صبح وادی بمبوريت ميں اپنے گھر سے ملحقہ ٹيلے پر گئے تاکہ سورج کے طلوع ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے ديکھ سکيں۔
ياد رہے کہ کالاش قبيلے کے افراد صديوں سے تين واديوں رنبور، بمبوريت اور برير پر مشتمل علاقوں ميں آباد ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے عمران کبیر نے بتايا کہ 22 دسمبر چونکہ سال کا سب سے چھوٹا دن ہوتا ہے اس لیے اس کی اہميت زيادہ ہے اور اس کے بعد دن لمبے اور راتيں چھوٹی ہونا شروع ہو جاتی ہيں۔
ان کے مطابق کالاش قبيلے کا کيلنڈر 13 ماہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ 40 سالہ عمران کبير نے بتايا کہ سورج کے ديکھنے کے عمل کو ہم 'سوری جاگيک' کہتے ہيں۔ جس کا مطلب ہے سورج ديکھنے کی جگہ۔
انہوں نے کہا کہ يہ عوامی جگہ ہر گاؤں ميں ہوتی ہے۔
انہوں نے واضح کيا کہ عورتيں مردوں کے شانہ بشانہ سورج کو ان کے ہمراہ ٹيلے پر سے نہیں ديکھ سکتيں۔ اگر وہ چاہيں تو اپنے گھروں ميں بنائے مقامات سے ديکھ سکتی ہيں۔
گزشتہ سال عالمی ادارہ ثقافت نے اس قديم ثقافت کو بچانے کے لیے اسے عالمی ورثہ کا درجہ ديا تھا۔
عمران کبير کے مطابق 'سوری جاگيک' سورج، چاند، اور ستاروں کے مشاہدے پر متشمل ايک علم ہے جس کے ذريعے قبيلے کے لوگ تہوار، رسومات، عبادات اور کھيتی باڑی کے لیے وقت کا تعين کرتے ہيں۔
کالاش قبیلے کے لوگوں نے سورج ديکھنے کے لیے پہاڑوں پر خاص نشانات کا تعين کيا ہوا ہوتا ہے۔ جہاں سے وہ سورج طلوع ہونے کے منظر کا گزشتہ برس سے موازنہ بھی کرنے کی کوشش کرتے ہيں کہ آيا سورج ایک سال بعد اسی وقت اور جگہ سے ہی نکلتا ہے۔
عمران کبیر بتاتے ہیں کہ سورج کے نکلنے کی پوزيشن ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی ہوتی جاتی ہے۔ تاہم ديکھنے کی پوزيشن ايک ہی ہوتی ہے۔
چترال ميں سورج آج کل باقی ملک کی نسبت دير سے نکلتا ہے۔
عمران کبير بھی اپنے چند ساتھيوں کے ہمراہ صبح آٹھ بجے سے تھوڑا پہلے ٹيلے پر پہنچے تاکہ سورج کی پوزيشن کی نشاندہی کر سکيں۔
گزشتہ کئی سال کی طرح سورج عمران کبير کے نشان زدہ جگہ پر اپنے مقررہ وقت ميں نہیں پہنچا۔ جس کا مطلب وہ يہ اخذ کرتے ہيں کہ سرديوں کا دورانيہ زيادہ ہوگا جبکہ بارشيں بھی زيادہ ہوں گی۔ انہيں خدشہ ہے کہ موسم کی شدت کی وجہ سے فصليں خراب ہوں گی۔
کالاش کے لوگ گندم، مکئی، جو، لوبيا، آلو اور مختلف اقسام کی سبزياں اور ايک خاص قسم کا باجرا اگاتے ہيں۔
عمران کبير کے مطابق گزشتہ سال انہوں نے گندم کی فصل ستمبر-اکتوبر ميں لگائی تھی جو کہ عمومی طور پر جولائی ميں پک جاتی ہے جس کے بعد کسان دوسری فصل کاشت کرتے ہيں۔
ان کا کہنا تھا کہ بے انتہا بارش کی وجہ سے وہ فصليں نہیں بچ سکيں۔ جس کی وجہ سے کسان گھاٹے ميں رہے اور کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
ياد رہے کہ سال 2015 میں چترال سے آنے والے سيلابی ريلوں نے سب سے زيادہ کالاش کی واديوں کو ہی متاثر کيا۔
سیلاب میں تيز پانی نے جہاں کھڑی فصلوں کو تہس نہس کر ديا تھا تو وہیں سياحوں کے لیے بنائے گئے ہوٹل اور مقامی طور پر بنائے گئے پاور ہاؤس بھی ندی نالوں کی نظر ہو گئے جس کی وجہ سے علاقہ مہينوں تک تاريکيوں ميں ڈوبا رہا۔
اشفاق احمد وادی بمبوريت کے رہائشی ہيں اور پيشے کے لحاظ سے ٹور گائيڈ ہيں۔
وہ کہتے ہیں کہ کالاش کے لوگوں کی تحقيق صرف دن کے وقت تک محدود نہیں بلکہ وہ رات کو چاند اور ستاروں کا بھی مشاہدہ کرتے ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے اشفاق احمد نے بتايا کہ چاند کے مطابق ہمارے فيسٹولز طے ہوتے ہيں۔ کچھ تہوار اور تقریبات چاند جب گھٹ رہا ہو اس وقت منائے جاتے ہيں جبکہ کچھ ايسے ہيں جو تب منائے جاتے ہيں جب چاند نيا نکل رہا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کالاش قبیلے میں بہت ساری عبادات رات کو کی جاتی ہيں۔ موسم بہار کی الگ اور سرما کی الگ الگ عبادتيں ہيں۔ ان کو کرنے کے لیے ستاروں کی پوزيشن ديکھنی ہوتی ہے کہ کونسی عبادت کب کرنی ہے جبکہ اس کے لیے اوقات ديکھنے ہوتے ہيں۔
اشفاق احمد بتاتے ہیں ستارے کالاش کميونٹی کی گھڑياں ہيں جبکہ چاند کو ديکھ کر تمام تہواروں کا اعلان کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول وہ يونيسکو کی اس ٹيم ميں معاونت کار تھے جو اس خطرے سے دوچار قديم تہذيب پر تحقيق کر رہی تھی۔
اشفاق احمد کو اس بات کی خوشی تو ضرور ہے کہ ان کی ثقافت کے ايک جُز کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار ديا گيا ہے تاہم نوجوان نسل کی عدم دلچسپی ان کے لیے تشويشناک امر ہے۔