رسائی کے لنکس

بانی ٹی ٹی پی مولوی فقیر محمد کابل جیل سے رہا، کیا مستقبل میں کردار ادا کر سکتے ہیں؟


افغانستان کے خفیہ ادارے 'این ڈی ایس' نے 17 فروری 2013 کو مولوی فقیر محمد کو چار دیگر ساتھیوں سمیت اُس وقت سرحدی صوبے ننگرہار کے ضلع نازیان سے گرفتار کیا تھا جب وہ طورخم بارڈر سے ملحقہ وادی تیراہ جا رہے تھے۔ (فائل فوٹو)
افغانستان کے خفیہ ادارے 'این ڈی ایس' نے 17 فروری 2013 کو مولوی فقیر محمد کو چار دیگر ساتھیوں سمیت اُس وقت سرحدی صوبے ننگرہار کے ضلع نازیان سے گرفتار کیا تھا جب وہ طورخم بارڈر سے ملحقہ وادی تیراہ جا رہے تھے۔ (فائل فوٹو)

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق نائب سربراہ مولوی فقیر محمد کو آٹھ سال بعد کابل جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ افغان حکومت نے رواں ماہ 15 اپریل کو تین دیگر ساتھیوں سمیت مولوی فقیر محمد کو رہا کیا۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائیریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) نے 26 فروری 2013 کو مولوی فقیر محمد کو چار دیگر ساتھیوں سمیت اُس وقت سرحدی صوبے ننگرہار کے ضلع نازیان سے گرفتار کیا تھا جب وہ طورخم سے ملحقہ پاکستان میں وادی تیراہ جا رہے تھے۔گرفتاری کے بعد مولوی فقیر محمد بگرام جیل میں زیرِ تفتیش رہے ۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سید رحمنٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مولوی فقیر محمد کے ساتھ رہائی پانے والوں میں ملا شاہد عمر، مولوی تراب اور مولوی حکیم اللہ شامل ہیں۔

ان کے مطابق ان کے ساتھ گرفتار کیے جانے والوں میں شامل مولوی شہباز خان عرف منگل باغ لگ بھگ ایک سال قبل کابل کی ایک جیل میں بیماری کے باعث فوت ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مولوی فقیر محمد اور ان کے ساتھ گرفتار کیے گئے تمام افراد کا تعلق افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلعے باجوڑ سے تھا۔ مولوی شہباز خان کی موت کے بعد آخری رسومات باجوڑ میں ہی ادا کی گئیں۔

سید رحمٰن کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے مولوی فقیر محمد اور ان کے تین دیگر ساتھیوں کو ضمانت پر رہا کیا ہے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد بتایا جا رہا ہے کہ مولوی فقیر محمد ساتھیوں سمیت افغانستان کے صوبہ کنڑ کے ضلع مرورہ میں شوڑتن نامی علاقے میں اپنے عزیزوں کے پاس جا چکے ہیں۔

فقیر محمد اور ان کے تین ساتھیوں کے رہائی کے بارے میں افغان حکومت یا پاکستانی حکام کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔

مولوی فقیر محمد کون ہے؟

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ قبائلی رہنما نے بتایا کہ 1970 میں پیدا ہونے والے فقیر محمد کا تعلق افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقے ماموند سے ہے اور انہوں نے ابتدائی مذہبی تعلیم علاقے کے مدارس سے ہی حاصل کی ہے۔ ان کے اساتذہ میں جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے مولوی عبد السلام بھی شامل ہیں جن کو گزشتہ برس مارچ میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 22 سال کی عمر میں مولوی فقیر محمد، مولانا صوفی محمد کی کالعدم تحریک نفاذ شریعت (ٹی این ایس) کا حصہ بن گئے تھے۔ مولانا صوفی محمد نے ملاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کے لیے 1993 میں باقاعدہ طور پر احتجاج شروع کیا تھا۔ مولوی فقیر محمد اس تحریک کے تمام تر احتجاجی مراحل کے علاوہ حکومت یا دیگر لوگوں کے ساتھ مذاکرات میں بھی پیش پیش تھے۔

صحافی محمد خورشید کے مطابق کالعدم تحریک میں شامل ہونے کے ساتھ ہی مولوی فقیر محمد کی سیاسی اور عسکری زندگی کا آغاز ہوا ۔

ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ اطلاعات کے مطابق امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد جب مولانا صوفی محمد نے افغانستان میں امریکہ کی افواج کے خلاف طالبان حکومت کی حمایت کے لیے لشکر لے جانے کا فیصلہ کیا۔ تو باجوڑ سے لشکر میں شامل افراد کو افغانستان منتقل کرنے کا کام مولوی فقیر محمد نے انجام دیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق اس لشکر میں مولوی فقیر محمد کے دو بیٹے بھی شامل تھے جن کو بعد میں مالانا صوفی محمد کے ساتھ افغانستان سے واپسی کے وقت ضلع کرم کے سرحدی علاقے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے وابستگی

ویسے تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا قیام دسمبر 2007 میں باقاعدہ طور پر عمل میں لایا گیا تھا جس کے پہلے سربراہ ملا بیت اللہ تھے ان کے ساتھ مولوی فقیر محمد ڈپٹی لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ البتہ گیارہ ستمبر کے بعد افغانستان سے ملحقہ زیادہ تر قبائلی اضلاع میں طالبان کے نام پر تخریب کاری شروع ہو گئی تھی جس میں باجوڑ اور مہمند کے اضلاع سر فہرست تھے۔ رپورٹس کے مطابق ان پر تشدد کارروائیوں میں مولوی فقیر محمد کا کردار اہم تھا۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے پر نہ صرف تحریک طالبان افغانستان بلکہ القاعدہ اور دیگر مبینہ دہشت گرد تنظیموں سے منسلک جنگجو پاکستان کے مختلف قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے تھے۔

ان عسکریت پسندوں میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے نائب ڈاکٹر ایمن الظواہری کی باجوڑ منتقلی اور موجودگی کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ تاہم باجوڑ کے رہائشی پشاور کے ایک اخبار سے منسلک صحافی محمد خورشید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ساتھ تعلقات کے بارے میں مولوی فقیر محمد نے کئی بار ذکر کیا تھا ۔

غیر ملکی عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کی بنیاد پر 2005 اور 2006 میں مولوی فقیر محمد کے گھر اور حجرے پر نہ صرف چھاپے مارے گئے تھے۔ بلکہ 2006 میں ان کے گھر کو نذر آتش بھی کر دیا گیا تھا۔ اس دوران ان کے تین قریبی رشتہ داروں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

مولوی صوفی محمد کے اپریل 2008 میں رہائی کے بعد جب وفاق اور خیبر پختونخوا میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنماؤں نے ملا فضل اللہ کی سربراہی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (سوات) سے مذاکرات شروع کیے۔ تو مولوی فقیر محمد وقتاََ فوقتاََ ان مذاکرات کے عمل کا حصہ تھے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سوات سے مرکزی عہدیدار اور سابق صوبائی وزیر واجد علی خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تحریک طالبان سوات کے ساتھ مذاکرات میں مولوی فقیر محمد کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکثر خاموش رہتے تھے مگر معاہدوں اور مفاہمت میں اہم کردار ادا کرتے تھے ۔

اگست 2009 میں ملا بیت اللہ کے امریکہ کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد وہ صرف دو دن کے لیے تحریک طالبان پاکستان کے قائم قام سربراہ بھی رہے تھے۔ دو دن بعد اُنہوں نے ہی حکیم اللہ محسود کے اس تنظیم کے سربراہ بننے کا اعلان کیا تھا۔

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تنظیم میں اختلافات سامنے آئے تھے۔ ان اختلافات کے باعث مولوی فقیر محمد نے خود کو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں سے الگ کرنا شروع کر دیا تھا۔

پاکستان سے افغانستان منتقلی

ویسے تو مولوی فقیر محمد کی گرفتاری کا اعلان افغان حکومت نے 17 فروری 2013 کو کیا تھا مگر کہاجاتا ہےکہ مولوی فقیر محمد 2009 کے آخر میں خاندان سمیت افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ کے ضلع مرورہ منتقل ہو گئے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر شوڑتن گاؤں میں سکونت احتیار کی تھی۔

اس دوران پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ سرحد پار سے ہونے والے حملوں میں مولوی فقیر محمد کا ہاتھ ہے۔ رپورٹس کے مطابق 2010 میں مولوی فقیر محمد نے ازخود باجوڑ کے سرحدی علاقوں میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پاکستانی حکام نے پانچ مارچ 2010 کو باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں پر ہونے والے حملے میں مولوی فقیر محمد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ مگر جولائی 2011 میں وہ افغانستان میں منظرِ عام پر آئے تھے۔ پانچ مارچ 2010 کی فوجی کارروائی میں شدت پسند تنظیم کے دو اہم کمانڈر مار ے گئے تھے۔

ٹی ٹی پی سے علیحدگی

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے اُس وقت کے ترجمان قاری احسان اللہ احسان نے پانچ مارچ 2012 کو مولوی فقیر محمد کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔

احسان اللہ احسان نے ان کو عہدے سے ہٹانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ خفیہ طور پر مذاکرات کر رہے ہیں۔

افغانستان جانے کا مقصد

سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع میں پاکستان کی فوج کے آپریشن ’راہِ راست‘ کے نتیجے میں عسکریت پسند تنظیم کا نیٹ ورک مکمل طور پر مفلوج ہو گیا تھا۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین غیر یقینی کا شکار
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:36 0:00

اس دوران شدت پسند تنظیم کے سربراہ ملا فضل اللہ بھی ساتھیوں سمیت افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔ رپورٹس کے مطابق ملا فضل اللہ نے مولوی فقیر محمد اور دیگر ساتھیوں سمیت افغانستان منتقل ہونے کے بعد افغان حکام کو پر امن رہنے کا یقین دلایا تھا۔

شدت پسندوں کے افغانستان منتقل ہونے پر حکومتِ پاکستان نے افغان حکومت سے احتجاج بھی کیا تھا۔

افغانستان میں اُس وقت سابق صدر حامد کرزئی کی حکومت تھی جن کی کوشش تھی کہ پر تشدد واقعات میں کمی آئے۔

افغانستان منتقلی کے بعد مولوی فقیر محمد میں کافی تبدیلی آئی تھی اور انہوں نے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی عسکری کارروائیوں کے بجائے مذاکراتی عمل پر توجہ دینے کی بات کی تھی۔

حکومت اور ملا فضل اللہ کے درمیان مذاکرات میں کردار

فروری 2008 کے عام انتخابات کے بعد جب وفاق میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ تو عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے صوفی محمد کو رہا کرکے ان کے داماد ملا فضل اللہ کی تحریک طالبان سوات کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ ان مذاکرات میں مولوی فقیر محمد پیش پیش تھے ۔

ملا فضل اللہ کی سربراہی میں کالعدم شدت پسند تنظیم اور خیبر پختونخوا حکومت کےدرمیان مذاکرات اور معاہدوں میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق صوبائی وزیر واجد علی خان کا کہنا ہے کہ مولوی فقیر محمد اس سارے عمل میں موجود رہے مگر خاموش رہتے تھے۔ تاہم ان معاہدوں میں انہوں نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔

مولوی فقیر محمد کے رہائی کے اثرات

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا تھا کہ اگر مولوی فقیر محمد اور ان کے ساتھیوں کی رہائی افغانستان میں جاری قیامِ امن اور افہام و تفہیم کی کاوشوں کے سلسلے میں کی گئی ہے تو یقیناً اس کے اچھے نتائج ہوں گے۔ کیوں کہ افغانستان میں قیامِ امن کے مثبت اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔

ان کے مطابق اگر اس رہائی کا تعلق سرحد پار افغانستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے گروہ بندی سے ہے۔ تو اس سے پاکستان ہی کے مختلف علاقوں میں جاری تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولوی فقیر محمد کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم کے بانی اراکین میں سے ہے۔ وہ مستقبل کے حوالے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس مفتی نور ولی محسود نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے علیحدہ ہونے والے دھڑوں کو یکجا کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کئی ایک دھڑوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ مبصرین کے مطابق اگر مولوی فقیر محمد مفتی نور ولی محسود کی کوشش کا حصہ بن گئے تو اس کے منفی اثرات سے قبائلی اضلاع کے امن و امان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

مولوی فقیر محمد کے بارے میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی رہائی کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں تاہم مولوی فقیر محمد اب ماضی کی طرح مؤثر نہیں رہے۔

افغان خواتین صحافیوں کا امن مذاکرات کا حصہ بننے کا مطالبہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

رحیم اللہ یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شدت پسند کمانڈر نہ صرف جنگ اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ بلکہ وہ تو پاکستان اور افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اور دونوں جانب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے حامی ہیں۔ ان کے بقول وہ اپنی گرفتاری پر اکثر کہا کرتا تھا کہ نہ جانے اُنہیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے مزید کہا کہ ماضی میں مولوی فقیر محمد کا شمار تحریک طالبان پاکستان اور مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی میں بہت اہم رہا ہے۔ وہ نہ صرف باجوڑ میں تحریک طالبان پاکستان اور تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی کے امیر تھے۔ بلکہ وہ بیت اللہ محسود کے ساتھ شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کے ڈپٹی لیڈر بھی رہے تھے۔ اور آبائی علاقہ ماموند بھی مکمل طور پر ان کے قبضے میں تھا۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا مولوی فقیر محمد دوبارہ کالعدم شدت پسند تنظیم میں واپس آ سکتے ہیں اور کیا وہ کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں، رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اب حالات کافی تبدیل ہو چکے ہیں۔ مولوی فقیر محمد نے جن کرداروں کے ساتھ کام کیا تھا ان میں سے زیادہ تر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ چنا نچہ اب مولوی فقیر محمد کے لیے کالعدم تنظیم میں واپس آنا اور پرانی حیثیت کو حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ اس وقت جب افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوششیں آخری مرحلے میں ہیں تو مولوی فقیر محمد کی رہائی حیران کن ہے۔ کیوں کہ ماضی میں مولوی فقیر محمد کے بدلے میں افغان حکومت نے پاکستان سے ان کو مطلوب بعض قیدیوں کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے یاد دلایا کہ 2012 میں مولوی فقیر محمد کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان سے حکومت کا ایک معاہدہ ہوا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔

اس معاہدے کے بعد مئی 2012 میں مولوی فقیر محمد کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG