رسائی کے لنکس

پاکستان میں کون کون سی تنظیمیں کالعدم ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پاپندی عائد کرنے کے بعد ملک میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کی تعداد 79 ہو گئی ہے۔

سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اگست 2001 میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے پہلی بار لشکرِ جھنگوی اور سپاہ محمد پاکستان نامی تنظیموں پر فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

پاکستان میں اب تک کالعدم قرار دی جانے والی 79 تنظیموں میں فرقہ وارانہ و علیحدگی پسند تنظیمیں، بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں فعال جہادی گروہ، طالبان کے دھڑے، عالمی تنظیموں القاعدہ، داعش اور ان سے منسلک تنظیمیں، طلبہ گروہ اور جرائم پیشہ گینگ، فلاحی اداروں سے وابستہ تنظیمیں شامل ہیں۔

لشکرِجھنگوی اورسپاہ محمد پاکستان سے شروعات

قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) کے سابق سربراہ طارق پرویز کہتے ہیں کہ اگست 2001 میں کالعدم قراد دی جانے والی جماعتیں لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ محمد پاکستان پر پاپندی کی تجویز 1998 میں دی جا چکی تھی کیوں کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت کے حوالے سے 1997 بڑا خطرناک سال ثابت ہوا تھا۔ نوے کی دہائی میں دونوں تنظیمیں تواتر سے ایک دوسرے کے علمائے کرام اور شخصیات کو نشانہ بنا رہی تھیں۔

سن 1996 میں تشکیل پانے والی تنظیم لشکرِ جھنگوی دیو بندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیم تھی جب کہ سپاہِ محمد شیعہ مکتبِ فکر کی ایک جنگجو تنظیم تھی جو 1993میں قائم ہوئی تھی۔

حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں تحریکِ لبیک کو کالعدم جماعت قرار دیا تھا۔
حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں تحریکِ لبیک کو کالعدم جماعت قرار دیا تھا۔

نائن الیون کے بعد کالعدم تنظیموں کی تعداد میں اضافہ

چودہ جنوری 2002 کو حکومتِ پاکستان نے مزید چار تنظیموں جیشِ محمد، لشکرِ طیبہ، سپاہِ صحابہ پاکستان، تحریکِ اسلامی اور تحریکِ نفاذ شریعت محمدی پر پابندی عائد کر دی تھی جب کہ دو ہفتے بعد تحریکِ جعفریہ پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا۔

ان تنظیموں میں جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں فعال پاکستانی جہادی تنظیمیں تھیں جن کی سربراہی مولانا مسعود اظہر اور حافظ محمد سعید کررہے تھے۔

امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد بڑھنے والے عالمی دباؤ کے زیرِ اثر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان دونوں تنظیموں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ بھارت کی جانب سے ان تنظیموں پر دسمبر 2001 میں پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔

جنوری 2002 میں جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کے ساتھ سپاہ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی)، تحریکِ اسلامی اور تحریکِ جعفریہ پاکستان پر بھی فرقہ واریت پھیلانے کے الزامات عائد کرتے ہوئے پابندی عائد کی گئی تھی۔

اسی ماہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں فعال تحریکِ نفاذ شریعت محمدی پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی جس کی سربراہی مولانا صوفی محمد کر رہے تھے۔

صوفی محمد نے 1994 میں مالاکنڈ ڈویژن میں ملک کے مروجہ عدالتی نظام کے بجائے قاضی عدالتوں کے قیام سمیت شریعت کے نفاذ کے لیے پر تشدد تحریک شروع کی تھی۔

نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو مولانا صوفی محمد مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ جہاد کے لیے افغانستان بھی لے کر گئے تھے۔

صوفی محمد (فائل فوٹو)
صوفی محمد (فائل فوٹو)

نئے نام سے بننے والی تنظیموں پر بھی پابندیاں

مارچ 2003 میں عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ پر پاپندی عائد کی گئی جب کہ اسی سال 15 نومبر کو ملتِ اسلامیہ پاکستان، خدام الاسلام اور اسلامی تحریک پاکستان پر پاپندی عائد کی گئی جو پہلے ہی سے کالعدم قرار دیے جانے والی سپاہ صحابہ، جیشِ محمد اور تحریکِ جعفریہ کے نئے نام تھے۔

ملتِ اسلامیہ پاکستان پر پاپندی کے نفاذ کے بعد سپاہ صحابہ 'اہلِ سنت و الجماعت' کے نام سے دوبارہ فعال ہوئی مگر یہ تنظیم بھی فروری 2012 میں کالعدم قرار پائی۔ اب یہ گروپ پاکستان راہِ حق پارٹی کے نام سے فعال ہے۔

علاوہ ازیں نومبر 2003 میں مزید تین تنظیموں جماعت الانصار، جماعت الفرقان اور حزب التحریر پر پابندی عائد کی گئی۔

جماعت الانصار مولانا فضل الرحمٰن خلیل کے جہادی گروہ حرکت المجاہدین کا نیا نام تھا جب کہ جماعت الفرقان جیشِ محمد کی قیادت سے ناراض کمانڈر عبدالجبار کے تشکیل دیے جانے والے دھڑے کا نام تھا۔

حزب التحریر عالمی سطح پر خلافت کے نظام کے قیام کے لیے فعال ایک تنظیم ہے کسے پاکستان میں شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی بنا پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔

اکتوبر 2004 میں لشکرِ طیبہ سے علیحدہ ہو کر قائم ہونے والے فلاحی ادارے خیر الناس انٹرنیشنل ٹرسٹ کو کالعدم قراد دے دیا گیا جب کہ سپاہ صحابہ سے وابستہ اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ آف پاکستان نامی طلبہ تنظیم پر اگست 2006 میں پاپندی عائد ہوئی۔

حافظ محمد سعید (فائل فوٹو)
حافظ محمد سعید (فائل فوٹو)

خیبرایجنسی کے مسلکی شدت پسند گروہ

وفاقی حکومت نے افغانستان سے ملحق پاکستان کے سرحدی علاقے خیبر ایجنسی میں مسلکی بنیادوں پر فعال تین شدت پسند گروہوں لشکرِ اسلام، انصار الاسلام اور حاجی نامدار گروپ پر 30 جون 2008 کو پابندی عائد کی۔

پاکستان کے دیگر قبائلی علاقوں کے مقابلے میں خیبر ایجنسی میں فعال ان شدت پسند تنظیموں کا ایجنڈا مقامی و مسلکی ہی تھا۔

بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے پیر سیف الرحمٰن کے خیبر ایجنسی میں موجود پیروکاروں نے 2004 میں انصارالاسلام نامی شدت پسند گروہ تشکیل دیا تھا جس کے مقاصد میں دیو بندی شدت پسند کمانڈر مفتی منیر شاکر کے گروہ لشکرِ اسلام کے حملوں کا مقابلہ کرنا تھا۔

حاجی نامدار گروپ اصل میں 'امر بالمعروف و نہی عنی المنکر' کے نام سے فعال تھا جس پر مارچ 2013 میں دوبارہ پابندی عائد کی گئی۔

ٹی ٹی پی اور اس کے دھڑے

دسمبر 2007 میں ملک بھر میں فعال 40 کے لگ بھگ چھوٹی، بڑی شدت پسند تنظیموں کے ایک اجلاس میں تحریکِ طالبان پاکستان کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کا سربراہ بیت اللہ محسود کو بنایا گیا۔

ٹی ٹی پی پر پابندی اگست 2008 میں عائد کی گئی۔

مارچ 2013 میں ٹی ٹی پی کے دھڑوں پربھی پاپندی کا اعلان کیا گیا جن میں تحریکِ طالبان سوات، تحریکِ طالبان مہمند، طارق گیدڑ گروپ اور عبداللہ عزام بریگیڈ، 313 بریگیڈ اور تحریکِ طالبان باجوڑ شامل تھے۔

نومبر 2016 میں جماعت الاحرار، جولائی 2019 میں حزب الاحرار اور اگست 2020 میں غازی فورس نامی ٹی ٹی پی کے دھڑے پابندی کی زد میں آئے۔

اطلاعات کے مطابق کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے بعد ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی کی کاوشوں کے سبب تمام دھڑے گزشتہ سال اختلافات ختم کر کے واپس ٹی ٹی پی میں ضم ہو گئے ہیں۔

بلوچ علیحدگی پسند گروہ

بلوچستان کی سب سے بڑی علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر اپریل 2006 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پانچ دیگر عسکری تنظیموں پر آٹھ اپریل 2010 کو پابندی عائد کی گئی جن میں بلوچستان ری پبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، لشکرِ بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ اور بلوچستان مسلح دفاع تنظیم شامل تھی۔

اگست 2012 اور مارچ 2013 میں بلوچستان بنیاد پرست آرمی، بلوچستان واجا لبریشن، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی جیسی بلوچ مسلح تنظیموں پر پاپندی عائد کی گئی۔

بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں فعال طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) بھی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے مبینہ الزامات کے سبب کالعدم قرار دی گئی۔

خیال رہے کہ اس طلبہ تنظیم کے دو سابق چیئرمین اللہ نذر بلوچ اور بشیر زیب بلوچ لبریشن فرنٹ اور بی ایل اے کے ایک دھڑے کی قیادت کر رہے ہیں۔

جولائی 2019 میں بلوچستان کی چار علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی اجوئی سنگر(براس) کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

سندھی علیحدگی پسند گروہ

دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر وفاقی وزارتِ داخلہ نے مارچ 2013 میں ایک سندھی قوم پرست جماعت 'جئے سندھ متحدہ محاذ' پر پابندی عائد کی جس کے سربراہ شفیع برفت تھے۔

تقریباً سات سال بعد حکومت نے سندھو دیش لبریشن آرمی اور سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس ایل اے) جیسی زیرِ زمین پر تشدد تنظیموں کے ساتھ ساتھ ایک قوم پرست سیاسی تنظیم 'جئے سندھ قومی محاذ' کے آریسر گروپ پر ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے پابندی عائد کی۔

حال ہی میں 'ایس ایل اے' نے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے جس کا مقصد پاکستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانا ہے۔

گلگت بلتستان کی فرقہ وارانہ تنظیمیں

گلگت بلتستان میں 2011 سے 2013 کے دوران شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی، مرکز سبیل آرگنائزیشن، تنظیم اہلِ سنت و الجماعت (گلگت بلتستان)، انجمن اسلامیہ، مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، تنظیم نوجوانان اہلِ سنت اور خانہ حکمت گلگت بلتستان نامی تنظیموں پر فرقہ وارانہ شدت پسندی پھیلانے کے الزام پر پابندی لگائی گئی۔

گلگت بلتستان کی ایک قوم پرست جماعت بالاورستان نیشنل فرنٹ (عبدالحمید خان گروپ) پر بھی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر 26 فروری 2019 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔

لیاری کا جرائم پیشہ گروہ

کراچی کے علاقے لیاری سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی اور جرائم میں ملوث پیپلز امن کمیٹی کو اکتوبر 2011 میں کالعدم تنظیموں کی فہرست کا حصہ بنایا گیا تھا۔ پیپلز امن کمیٹی کی سربراہی عزیر بلوچ کر رہے تھے۔

چین کے لیے 'خطرہ' بننے والی تنظیموں پر پابندی

وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے مبینہ طور پر چین کی درخواست پر ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور اسلامک جہاد یونین نامی تین بین الاقوامی تنظیموں پربھی پاپندی عائد کی گئی۔ ان تنظیموں پر بیجنگ یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ یہ تنظیمیں القاعدہ سے وابستہ ہیں اور شمالی سرحدی صوبے سنکیانگ میں سرگرم ہیں۔

چینی حکام کی جانب سے متعدد بار پاکستانی حکومت کی جانب سے مذکورہ تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کو سراہا گیا ہے۔

شام کی جنگ سے منسلک تنظیمیں

وفاقی وزارتِ داخلہ نے دو ایسے کم معروف شیعہ عسکریت پسند گروہوں انصارالحسین کو دسمبر 2016 اور خاتم الانبیا کو اگست 2020 میں کالعدم قرار دیا تھا جن پر پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے اور نوجوانوں کو لڑنے کے لیے بیرونِ ملک خصوصاً شام بھیجنے کے الزامات تھے۔

یمن اور ترکی کے فلاحی ادارے

دسمبر 2018 میں یمن سے تعلق رکھنے والے الرحمہ ویلفیئر ٹرسٹ آرگنائزیشن نامی فلاحی ادارے کو القاعدہ کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر کالعدم قراد دیا گیا۔

اپریل 2019 میں ترکی کی حکومت کی درخواست پر امریکہ میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ پاک ترک انٹرنیشنل سی اے جی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو کالعدم قرار دیا گیا۔

فلاحی ادارے

القاعدہ کو مالی معاونت فراہم کرنے کے الزام پر مارچ 2012 میں الحرمین فاؤنڈیشن پاکستان اور رابطہ ٹرسٹ نامی دو فلاحی ادارے کالعدم قرار پائے۔

اسی طرح فروری 2019 میں عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے مبینہ دباؤ پر حکومت کی جانب سے جماعت الدعوۃ اور اس سے وابستہ فلاحی ادارے فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔

لشکرِ طیبہ سے وابستہ رہنماؤں نے لشکر پر پابندی کے بعد جماعت الدعوۃ کے نام سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی تھیں۔

اس پابندی کے کچھ ماہ بعد جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن سے منسلک مزید سات تنظیموں کو بھی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا جن میں الانفال ٹرسٹ، ادارہ خدمت خلق، الدعوۃ والارشاد پاکستان، الحماد ٹرسٹ، مسجد اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، المدینہ فاؤنڈیشن اور معاذ بن جبل ایجوکیشنل ٹرسٹ شامل ہیں۔

جون 2017 میں تحریکِ آزادی جموں کشمیر نامی کالعدم قراردے جانی والی تنظیم کا تعلق بھی جماعت الدعوۃ سے بتایا جاتا ہے۔

داعش، لشکر جھنگوی العالمی اور جنداللہ

جولائی 2015 میں دولتِ اسلامیہ یا داعش، نومبر 2016 میں لشکرِ جھنگوی العالمی اور 2018 میں جنداللہ نامی شدت پسند تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی۔

جنوری 2015 میں داعش نے پاکستان و افغانستان کے لیے خراسان کے نام سے اپنی تنظیم کا اعلان کیا تھا۔ سیکیورٹی حکام کے مطابق لشکرِ جھنگوی العالمی اور داعش مشترکہ طور پر پاکستان اور افغانستان میں فعال تھیں۔

جنداللہ ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں ایرانی حکومت کے خلاف فعال سنی مکتبِ فکر کی شدت پسند تنظیم ہے جس پر الزام ہے کہ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں قائم اپنے ٹھکانوں سے سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے۔

اب تک کالعدم قرار دی جانے والی 79 تنظیموں میں کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہیں جن سے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

ان تنظیموں میں تحریک نفاذ امن، تحفظ حدود اللہ، اسلام مجاہدین اور جیش اسلام شامل ہیں۔

واچ لسٹ میں شامل تنظیمیں اور فلاحی ادارے

معمار ٹرسٹ کمیٹی، غلامانِ صحابہ، سچل سرمست ویلفیئر ٹرسٹ کراچی اور الجزا پیشنٹ ویلفیئر آرگنائزیشن نامی چار تنظیموں کو وفاقی وزارتِ داخلہ واچ لسٹ میں شامل کر کے ان کی سرگرمیوں کو مانیٹر کر رہی ہے۔

واچ لسٹ میں شامل تنظیموں کی دہشت گرد گروہوں سے وابستگی ظاہر ہونے کے بعد ان پر باقاعدہ پاپندی عائد کی جاتی ہے۔

ٹی ایل پی بریلوی مکتبِ فکر کی پہلی مذہبی جماعت ہے جسے حکومت نے حال ہی میں کالعدم قرار دیا ہےِ۔

اس سے پہلے سنی تحریک کو کچھ سالوں تک وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے واچ لسٹ میں رکھا گیا تھا مگر بعد میں اس کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔

تنظیموں پر پاپندی عائد کرنے کے ممکنہ اثرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں پر پابندی عائد کرنے سے ملک میں شدت پسندی میں کمی واقع ہوئی ہے۔

'نیکٹا' کے سابق سربراہ طارق پرویز کا کہنا ہے کہ تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا بنیادی مقصد عوام اور معاشرے کو اس تنظیم اور اس کی شدت پسندانہ سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔

اُن کے بقول "اب ایف اے ٹی ایف کی سفارشات اور پاکستانی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کے بعد کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں شدید مسائل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی بھرتی، تنظیم سازی اور مالی معاملات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔"

طارق پرویز نے کہا کہ حکومت کو تنظیموں کے ساتھ ساتھ تنظیموں کے سربراہوں یا رہنماؤں پر بھی پاپندیاں عائد کرنا چاہیے تاکہ نئے ناموں کے ساتھ تنظیموں کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششوں کو روکا جا سکے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG