پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے دہشت گردوں کی معاونت اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے پانچ مبینہ کارکنوں کو مجموعی طور پر 16، 16 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
جمعرات کو جن کارکنوں کو سزائیں سنائی گئیں ان میں عبداللہ عمیر، ہنزلہ، احمد الرحمان، عاصم اکبر سعید، محمد یعقوب اور محمد یوسف شامل ہیں۔
حکام کے مطابق پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گردوں کو سنائی جانے والی یہ سب سے زیادہ سزائیں ہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق کالعدم تنظیم القاعدہ کے پانچوں ارکان کو پانچ سال قید کی سزا دہشت گردوں کی مالی معاونت، سات سال قید کی سزا دھماکہ خیز مواد رکھنے اور تین سل قید کی سزا کالعدم تنظیم کے ساتھ کام کرنے کے جرم میں سنائی گئی ہے۔
ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے جرم میں بھی ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مجرموں کے نام تمام جائیدادیں ضبط کرنے کے بھی احکامات جاری کیے ہیں۔
ترجمان سی ٹی ڈی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سزا پانے والے تمام دہشت گردوں کو گزشتہ سال گوجرانوالہ سے اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
پاکستان کی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں نے گزشتہ چند ماہ سے کالعدم اور انتہا پسند تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور اُن کے خلاف سخت کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
لیکن اِس کے باوجود امریکی محکمہ خارجہ پاکستان نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا تھا جس پر پاکستان نے مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے۔
دہشت گردی کے معاملے پر امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال بھارت اور افغانستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جس سے ایسے گروہوں کی کارروائی کرنے کی صلاحیت کمزور ہو سکے۔
پنجاب کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس خواجہ خالد فاروق سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن حالیہ عرصے میں ان میں تیزی کا تعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے ہے۔
اُن کے بقول پاکستان نے رواں سال دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور ان کے خلاف کارروائیوں کی رپورٹ ایف اے ٹی ایف میں جمع کرانی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق آئی جی پنجاب پولیس نے بتایا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت (ٹیرر فنانسنگ) سے متعلق ایف اے ٹی ایف کے 50 فی صد نکات پر پاکستان پہلے ہی متفق ہو گیا تھا۔
البتہ 11 ایسے نکات ہیں جن میں منی لانڈرنگ (رقوم کی غیر قانونی منتقلی)، کالعدم تنظیموں کیے خلاف کارروائیاں اور اُنہیں سزائیں دینے پر زور دیا گیا تھا۔
سابق آئی جی کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو کچھ فہرستیں بھی فراہم کی تھیں جس پر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ سال سے ہی کام شروع کر دیا تھا۔
خواجہ خالد فاروق کہتے ہیں کہ اب کالعدم تنظیمیں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہیں کیوں کہ شہروں کی نسبت وہاں اُنہیں کارروائیاں کرنے میں آسانی ہے۔
خواجہ خالد فاروق کہتے ہیں کہ "گزشتہ سال ہی القاعدہ، لشکر طیبہ اور دوسری تنظیموں کے لوگ پکڑے گئے تھے جن کو اب سزائیں دی جا رہی ہیں۔ گرفتاری کے بعد ان پر کیس چلتا ہے اور عدالتوں سے سزائیں ملنے میں تھوڑا وقت لگ جاتا ہے۔"
لیکن اُن کے بقول قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت پنجاب اور سندھ میں سی ٹی ڈی اچھا کام کر رہی ہے جس کے نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں اِس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے اور اِسی تبدیلی کا اثر یہ ہے کہ حکومتی وکیل (پراسیکیوشن) کیس کو اچھے طریقے سے تیار کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ حکومتِ پاکستان کی پالیسی تبدیل ہوئی ہے تو سزائیں ملنا شروع ہوئی ہیں اور یہ صرف دکھانے کے لیے نہیں ہے بلکہ بدلی ہوئی پالیسی سب کو نظر آتی ہے۔
امریکہ مطمئن کیوں نہیں ہوتا؟
سابق آئی جی پنجاب نے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا یہ پریشر ٹیکٹکس (دباؤ کا طریقہ کار) ہے تاکہ مزید سختی کرائی جائے۔
خواجہ خالد فاروق کہتے ہیں کہ ایسی تنظیموں پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ بعض تنظیموں کے ملک کی مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی روابط ہوتے ہیں۔ لہذٰا اُن کے دباؤ کا حکومت کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اُن کے بقول جب افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں بڑھتی ہیں تو وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے امریکہ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالتا ہے۔
خواجہ خالد فاروق کے بقول یہ بین الاقوامی 'گیم' کا بھی حصہ ہے۔ امریکہ کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکہ جہاں پاکستان کی بعض معاملات پر تعریف کرتا ہے وہیں بھارت کو خوش کرنے کے لیے اس پر مزید دباؤ بھی ڈالتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے اندرونی مسائل کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے لہذٰا اس پر شک کرنا زیادتی ہے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ یہ امریکہ اور پاکستان کی سیاست ہے جو چلتی رہتی ہے۔ کبھی امریکہ پاکستان کی تعریف کر دیتا ہے اور کبھی تنقید کرتا ہے۔
اُن کے بقول اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ پاکستان اب بھی ویسی ہی پالیسی پر گامزن ہے جس پر وہ 10 سال پہلے تھا۔ البتہ امریکہ میں کچھ پالیسی سازوں کی یہ رائے ہے کہ پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ لہذٰا اس پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ڈاکتر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان کے حق میں بیان آ جائے۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف حالیہ کارروائیاں
دوسری جانب پنجاب کے محکمہ برائے انسداد دہشت گردی کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
چند روز قبل ایک کارروائی میں کالعدم جماعت سپاہ محمد کے رکن قیصر عباس کو صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع ڈیرہ غازی خان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ قیصر عباس کا نام ریڈ بُک میں شامل ہے۔ 10 جون کو ایک کارروائی میں کالعدم تنظیم داعش سے وابستہ بابر ملہی نامی شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سی ٹی ڈی کا موقف تھا کہ بابر ملہی صوبے میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اور اس کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا۔
رواں ماہ نو جون کو سی ٹی ڈی پنجاب نے ایک اور کارروائی کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے شہر بھکر سے کالعدم تنظیم داعش کے دو کارکن محمداللہ اور فضل رزاق کو گرفتار کیا تھا۔
ان پر دہشت گروں کی مالی معانت کرنے کا الزام ہے۔ سی ٹی ڈی کے ترجمان کے مطابق بھکر سے گرفتار کیے گیے داعش کے کارکنوں سے ممنوعہ مواد اور بھاری کرنسی برآمد ہوئی۔
رواں ماہ ہی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے دو کارکنوں فرید خان اور کلیم اللہ کو گرفتار کیا گیا۔
انسداد دہشت گری کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کالعدم تنظیم داعش کے چھوٹے چھوٹے مقامی گروپ اور رہنما سوشل میڈیا کے ذریعے خود کو سرگرم رکھتے ہیں جن کا افغانستان میں موجود داعش کی مرکزی قیادت سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے۔