پاکستان کی وفاقی کابینہ نے رواں ہفتے ملک کے مختلف شہروں بشمول لاہور اور کراچی میں پرتشدد مظاہروں اور نظامِ زندگی مفلوج کرنے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کی منظوری دے دی ہے۔ تحریک پر پابندی کی سفارش ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے کی تھی۔
بدھ کو اسلام آباد میں پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندی انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت لگائی جا رہی ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کا قیام
بریلوی مکتبِ فکر کی جماعت 'ٹی ایل پی' کا قیام پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہل کار ممتاز حسین قادری کی رہائی مہم کے دوران عمل میں لایا گیا۔ تاہم باقاعدہ جماعت کے طور پر اس کا اعلان جنوری 2017 میں کراچی کے نشتر پارک کے ایک جلسے میں کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ سلمان تاثیر کو جنوری 2011 میں اُن کی اپنی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کار ممتاز حسین قادری نے توہینِ مذہب کا الزام لگاتے ہوئے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ بعدازاں 2016 میں ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پاکستان میں توہینِ مذہب قانون میں تبدیلی پر زور دیتے ہوئے توہین مذہب کے الزام میں جیل میں قید مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کی بھی کوشش کی تھی۔
تحریک لبیک نے مختلف مواقع پر اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے اہم راستے فیض آباد انٹرچینج سمیت ملک کے مختلف شہروں میں دھرنے بھی دیے جس کی وجہ سے ملک میں نظامِ زندگی مفلوج ہوتا رہا۔
خادم حسین رضوی کون تھے؟
ٹی ایل پی کے بانی علامہ خادم حسین رضوی پنجاب کے شہر لاہور میں محکمۂ اوقاف کے زیرِانتظام ایک مسجد کے خطیب تھے لیکن اُن کی جانب سے ممتاز قادری کے اس عمل کی کھل کر حمایت کرنے پر محکمہ اوقاف کی جانب سے انہیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔
نوکری سے نکالے جانے کے بعد نہ صرف خادم حسین رضوی نے پاکستان میں توہینِ مذہب قانون اور آئین کی شق 295 سی کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی بلکہ وہ ممتاز قادری کی رہائی کے لیے بھی سرگرم رہے۔
خادم رضوی گزشتہ سال نومبر میں انتقال کر گئے جن کی جگہ ان کے بیٹے سعد رضوی کو جماعت کا سربراہ بنایا گیا۔
ممتاز قادری کی پھانسی اور سنی علما کا اکٹھ
ممتاز قادری کی رہائی کے لیے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بریلوی مکتبِ فکر کے علمائے کرام علامہ خادم حسین رضوی، پیر محمد افضل قادری، پیر سید ظہیر الحسن شاہ، محمد معید نور، پیر محمد اعجاز اشرفی، مولانا غلام عباس فیضی، مفتی عابد رضا قادری اور دیگر کی قیادت میں ممتاز قادری کی رہائی کے لیے ایک تحریک شروع کی گئی جسے ابتداً 'تحریک لبیک یا رسول اللہ' کا نام دیا گیا۔
فروری 2016 میں ممتاز قادری کے جنازے میں شرکت کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے ملک بھر کے بریلوی مکتبۂ فکر کی مذہبی قیادت کا اسلام آباد میں ایک اجلاس ہوا۔
اجلاس میں جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) کے دونوں دھڑوں کے سربراہان علامہ شاہ اویس نورانی، ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر اور سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری سمیت علامہ خادم حسین رضوی، ڈاکٹراشرف آصف جلالی، علامہ نوید الحسن شاہ مشہدی، پیر افضل قادری، پیر عابد سیفی، ڈاکٹر ظفر اقبال جلالی، پیر عنایت الحق شاہ، علامہ عرفان شاہ مشہدی اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔
اجلاس میں مختلف وجوہات کی بنا پر شرکت نہ کرنے والے رہنماؤں، مفتی منیب الرحمٰن، علامہ راغب نعیمی، پیر حسین الدین شاہ، علامہ ریاض حسین شاہ، علامہ حامد سعید کاظمی، حامد رضا اور دیگر رہنماؤں سے فون پر مشاورت کی گئی۔
اجلاس میں شریک کراچی کے بریلوی مکتبِ فکر کے ایک رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خادم رضوی اور ان کے ہم خیال مذہبی رہنما اس بات پر زور دے رہے تھے کہ توہینِ مذہب قانون اور اس کی شق 295 سی کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کر کے وہاں دھرنا دیا جائے۔
اُن کے بقول خادم رضوی نے یہ بھی تجویز دی کہ بریلوی مکتبِ فکر کے تمام گروہ اپنی اپنی تنظیمیں ختم کر کے ایک نئی جماعت قائم کریں جس کا نام 'تحریک لبیک یارسول اللہ' ہو۔
رہنما کے بقول ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر اور علامہ شاہ اویس نورانی نے نئی جماعت بنانے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی مخالفت کی جب کہ مفتی منیب الرحمن، علامہ راغب نعیمی اور کچھ دیگر رہنماؤں نے بھی جے یو پی کے رہنماؤں کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے خادم رضوی اور ان کے ہم خیال ساتھیوں کو پر تشدد تحریک چلانے کے بجائے بریلوی جماعتوں کا ایک اتحاد تشکیل دینے کا مشورہ دیا۔
اُن کے بقول شرکا کی اکثریت نے خادم رضوی کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے ایک جماعت کی تشکیل کرنے کی مخالفت کو مصالحت کی کوشش قرارد یا اور یوں علامہ خادم حسین رضوی، ڈاکٹر اشرف آصف جلالی، سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری اوردیگر رہنماؤں نے مل کر 'تحریک لبیک یارسول اللہ' کے نام سے نئی جماعت قائم کر دی۔
فیض آباد دھرنے اور معاہدے
سن 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف نامے میں مبینہ تبدیلی پر ٹی ایل پی نے اس وقت کے وزیرِ قانون کا استعفیٰ طلب کیا۔
تحریک نے اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وفاقی دارالحکومت کو تین ہفتوں تک بند کیے رکھا۔ بعدازاں فوج کی مداخلت یا ثالثی کے بعد حکومت کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ٹی ایل پی دھرنا ختم کرنے پر راضی ہو گئی جس کے تحت وفاقی وزیر قانون زاہد حامد مستفعی ہوئے۔
ماہرین کے مطابق حکومت کو معاہدے کے لیے دباؤ میں لانے میں کامیابی سے ٹی ایل پی کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یہ مزید منظم ہوئی۔
اسی دھرنے پر سپریم کورٹ نے فروری 2019 میں ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا جو فیض آباد دھرنا کیس کے نام سے مشہور ہوا۔
سپریم کورٹ کے دو رُکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایسے فوجی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
عدالتی حکم میں سڑکیں بلاک کرنے اور نقصِ امن کے مسائل پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔
اس دوران ایک فوجی افسر کی جانب سے دھرنے کے اختتام پر شرکا میں رقوم تقسیم کرنے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس پر سوشل میڈیا پر بھی ردِعمل سامنے آیا تھا۔
اکتوبر 2018 میں توہینِ مذہب کے الزام میں سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کے موقع پر ٹی ایل پی نے دوبارہ ملک گیر احتجاج کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا لیکن حکومت نے اس وقت بھی مذاکرات سے معاملے کو ختم کیا۔
البتہ، آسیہ بی بی کے ملک چھوڑنے کے بعد دوبارہ پر تشدد احتجاج کرنے پر پارٹی کی مرکزی قیادت کو دہشت گردی کے الزامات میں حراست میں لے لیا گیا۔
گزشتہ برس فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر ٹی ایل پی نے احتجاج کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فرانس سے ہر قسم کا سفارتی رابطہ ختم کرے اوراسلام آباد میں تعینات فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کریں۔
سیاست میں انٹری
جنوری 2017 میں کراچی کے نشتر پارک کے جلسے میں نئی جماعت کی قیادت نے ملک کے انتخابی عمل میں 'ٹی ایل پی' کے نام سے حصہ لینے کا اعلان کیا اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 پر ستمبر 2017 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں شیخ اظہر حسین رضوی کو امیدوار نامزد کر دیا۔
لاہور کی یہ نشست سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کی نااہلی کے سبب خالی ہوتی تھی جہاں سے ضمنی انتخابات میں ان کی اہلیہ کلثوم نواز بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھیں۔ ٹی ایل پی نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے 7130 ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
اگرچہ ٹی ایل پی کو 2018 کے عام انتخابات میں صرف کراچی میں سندھ اسمبلی کی دو نشتیں اور خواتین کی ایک مخصوص نشست ملی مگر دو ڈھائی سال قبل ہی وجود میں آنے والی اور پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت کو اس ہر حلقے سے ہزاروں ووٹ ملے جہاں اس نے اپنے اُمیدوار کھڑے کیے تھے۔
ٹی ایل پی ملکی سطح پر 22 لاکھ سے زائد ووٹ لے کر پانچویں بڑی جماعت بن کر ابھری جب کہ ملک کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور کی تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔
سنی قدامت پسند حلقوں میں تحریک کی مقبولیت
پاکستان کی مذہبی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ٹی ایل پی نے توہینِ مذہب جیسے حساس مذہبی ایشوز پر احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں سے جلد ہی بریلوی مکتبِ فکر کے عوامی حلقوں کی توجہ حاصل کی۔
محقق ذبیح اللہ صدیق بلگن نے حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب 'پاکستانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کے کردار' میں 'ٹی ایل پی' کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) کے رہنماؤں مولانا شاہ احمد نورانی اور عبدالستار نیازی کے بعد کوئی بڑے قد کاٹھ کی شخصیت بریلوی مکتبِ فکر کی سیاست کی قیادت کے لیے موجود نہیں تھی۔
ان کے بقول "خادم رضوی کے متحرک ہونے کا سبب ممتاز قادری کی سزائے موت مانا جاتا ہے جب کہ وہ اپنے سخت بیانات کی وجہ سے بریلوی مکتبِ فکر کے قدامت پسند حلقوں میں بھی مقبول ہو گئے۔"
بریلوی مکتبِ فکر کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بریلوی حلقوں میں کافی عرصے سے یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ ملک میں اکثریت رکھنے کے باوجود سیاسی طاقت حاصل کیوں نہیں کر پا رہے؟
کراچی میں بریلوی مکتبِ فکر کے ایک مدرسے کے استاد مفتی زبیر عطاری کا کہنا ہے کہ 'امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ضیا الحق کی آمرانہ حکومت نے اپنے مقاصد کے لیے دیو بندی مکتبِ فکر کی جماعتوں اور جہادی گروہوں کی حمایت کی۔"
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "بریلوی مکتبِ فکر کے حلقے ملک میں ریاستی سرپرستی کے سبب دیو بندی مکتبِ فکر کے گروہوں کے ملک بھر میں وسائل، افرادی قوت، پارلیمان میں نمائندگی، مدارس میں اضافے اور دیگر اسباب کے سبب مضبوط ہونے کے عمل کو شدت سے محسوس کر رہے تھے۔"
ان کے بقول 90 کی دہائی میں 'سپاہ صحابہ پاکستان' اور دیگر دیو بندی و اہلِ حدیث تنظیموں نے مبینہ طور پر کراچی میں بریلوی مکتبِ فکر کی مساجد پر قبضے کرنا شروع کیے تو بریلوی مکتبِ فکر کی تشویش میں اضافہ ہوا۔
زبیر عطاری کا کہنا تھا کہ بریلوی مکتبِ فکر کے متعدد افراد نے 'جے یو پی' اور علامہ شاہ احمد نورانی کے مصالحت پر مبنی طرزِ سیاست کے بجائے 90 کی دہائی میں سلیم قادری کی قیادت میں بننے والی سنی تحریک میں شمولیت کو ترجیح دی جس کا نعرہ تھا "جوانیاں لٹائیں گے، مسجدیں بچائیں گے۔"
اُن کے بقول سنی تحریک اور سپاہ صحابہ پاکستان اور دیگر گروہوں کے مابین ہونے والے تصادم کے نتیجے میں کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کافی ہلاکتیں بھی ہوئی۔
مفتی زبیر عطاری کا کہنا ہے کہ دیگر بریلوی جماعتوں کے برعکس خادم رضوی نے ملک بھر خصوصاً کراچی میں تنظیم سازی پر بھرپور توجہ دی اور گلی محلوں کی سطح پر قائم مساجد اور میلاد کمیٹیوں کے ذریعے تنظیم کو منظم کیا۔
اُن کے بقول "یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مرحوم خادم رضوی نے ٹی ایل پی کے ذریعے پاکستان میں کھوئے ہوئے بریلوی تشخص کو دوبارہ زندہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
بریلوی مکتبِ فکر کی جماعتیں اور دھڑہ بندی
محقق ذبیح اللہ صدیق بلگن نے اپنی کتاب 'پاکستانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کے کردار' میں لکھا ہے کہ پاکستان میں اس وقت بڑے نیٹ ورک کی حامل بریلوی جماعتوں کی تعداد 43 کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان کی مذہبی سیاست میں ساڑھے چار دہائیوں تک جمعیت علمائے پاکستان بریلوی مکتبِ فکر کی واحد سیاسی نمائندہ جماعت رہی جو بعد میں دھڑے بندیوں کا شکار ہوتے ہوئے ایک کمزور جماعت بن گئی۔
ذبیح اللہ صدیق بلگن لکھتے ہیں کہ 1948 میں تشکیل پانے والی جے یو پی 1958 تک سیاسی معاملات سے الگ تھلگ تھی اور صرف مذہبی معاملات میں سرگرم تھی۔ بعد میں جے یو پی کے فوجی حکمرانوں کے ساتھ خصوصی مراسم رہے اور وہ واحد مذہبی جماعت تھی جس نے ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی حصہ نہیں لیا تھا۔ اس کے بدلے حکومت کے زیرِ انتظام مساجد اور گدیوں کی نگرانی بھی اسی جماعت کے پاس تھی۔
ذبیح اللہ صدیق بلگن کے مطابق 'جے یو پی' نے 70 کی دہائی کی انتخابی سیاست میں کافی کامیابیاں حاصل کیں اور 1970 کے انتخابات میں اس جماعت نے تمام مذہبی جماعتوں سے زیادہ ووٹ لیے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ان کے نمائندے آخری بار کامیاب ہوئے۔
اسی کی دہائی میں اس وقت کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق کے دور میں اُن کی حمایت اور مخالفت کے معاملے پر جے یو پی میں اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ پنجاب کے ایک معتبر رہنما مولانا عبدالستار خان نیازی کی قیادت میں ایک دھڑے نے علامہ شاہ احمد نورانی سے علیحدہ ہو کر جے یو پی (نیازی گروہ) تشکیل دے کر ضیا الحق کی حمایت کی۔
یوں جے یو پی مزید منقسم ہوتی رہی۔ صاحبزادہ فضل کریم اور حافظ محمد تقی نے مرکزی جے یو پی، سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیب نے نظامِ مصطفی پارٹی اور سلیم قادری نے سنی تحریک کے نام سے اپنی تنظمیں بنائیں۔ ڈاکثر طاہر القادری نے بھی پہلے تحریکِ منہاج القرآن اور پھر پاکستان عوامی تحریک کے ذریعے بریلوی مکتبۂ فکر کی توجہ حاصل کی۔
مولانا شاہ احمد نورانی کے انتقال کے بعد صاحبزادہ ابوالخیر نے جے یو پی نورانی کے نام سے اپنا دھڑا تشکیل دیا جب کہ مولانا نورانی کے صاحبزادے شاہ اویس نورانی جے یو پی کے بقیہ دھڑے کے سربراہ بنے۔
سنی تحریک بھی ثروت اعجاز قادری، بانی سلیم قادری کے صاحبزادے بلال سلیم قادری اور مطلوب اعوان کی قیادت میں تین مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے۔
البتہ 'ٹی ایل پی' تشکیل کے بعد بریلوی مکتبِ فکر کے سارے گروہوں سے رہنماؤں اورکارکنان کی بڑی تعداد اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہی۔
ٹی ایل پی کے رہنماؤں علامہ اشرف جلالی اور پیر افضل قادری نے بھی جماعت کے اپنے دھڑے تشکیل دیے مگر وہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے جب کہ نومبر 2018 ہی میں ٹی ایل پی کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری نے اپنے اپ کو تنظیم سے علیحدہ کر دیا تھا۔
تحریک لبیک سے متعلق اقلیتوں کے تحفظات
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل سیکیوریٹی اینڈ کارپوریشن سے وابستہ تجزیہ کار اسفند یار میر کا کہنا ہے کہ "ٹی ایل پی حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے اور مذہبی اقلیتوں پر حملوں کے حوالے سے ایک شدت پسند تنظیم کے طور پر کافی عرصے سے ابھر رہی تھی۔"
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی پر پاپندی کا فیصلہ ایک درست قدم ہے کیوں کہ احتجاج کے نام پر جس حد تک تشدد کیا گیا وہ شدت پسندی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔
توہینِ مذہب سے متعلق قانون کے حق میں وکالت کرنے والی ٹی ایل پی کی عوامی مقبولیت میں اضافے سے ملک کی مذہبی اقلیتوں کی تنظیمیں بھی تشویش میں مبتلا تھیں۔
کراچی کے ایک مسیحی سماجی رہنما کے مطابق "پاکستان میں اقلیتیں طویل عرصے سے شدت پسندوں کے حملوں کا شکار بنتی رہی ہیں مگر ٹی ایل پی کے قیام کے بعد توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت تشدد کے واقعات میں ملک بھر میں اضافہ ہوا ہے۔"
پاپندی کے بعد ٹی ایل پی کا مستقبل
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت پر پاپندی عائد ہونے کے بعد ان کے اراکین کی کسی بھی سطح کی اسمبلی میں رکنیت ختم ہو جائے گی۔
کراچی میں الیکشن کمیشن کے ایک ذمے دار کے مطابق "الیکشن کمیشن وزارتِ داخلہ کی جانب سے ٹی ایل پی پر پاپندی کے نوٹی فکیشن کے بعد ہی کوئی فیصلہ کر سکے گا مگر ایسا لگتا ہے کہ ٹی ایل پی حکومت کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ سے رُجوع کرے گی۔"
خیال رہے کہ ٹی ایل پی سندھ اسمبلی میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 249 سے ضمنی انتخابات میں حصہ بھی لے رہی ہے جہاں انتخابات 29 اپریل کو شیڈول ہیں۔
ای سی پی کے اہل کار کے مطابق "اگر پارٹی پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے سے پہلے ارکان سپیکر کو تحریری طور پر اپنی پارٹی سے وابستگی ختم کرکے آزاد حیثیت میں رہنے کے بارے میں آگاہ کر دیں تو ان کی رکنیت ختم ہونے سے بچ سکتی ہے۔ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی رکنیت ختم ہوتی ہے بلکہ وہ ضمنی الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے کے اہل بھی نہیں رہتے۔"
وائس اف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے محقق اسفند یار میر کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی پر پاپندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر تنظیم کے خلاف کریک ڈاؤن بھی ضروری ہے۔
اُن کے بقول کریک ڈاؤن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک مشکل ٹاسک ہو گا کیوں کہ حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئیں دیگر تنظیموں کی نسبت ٹی ایل پی کی عوامی حمایت اور ملک کے نظام کو مفلوج کرنے کی طاقت بہت زیادہ ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ماضی میں بھی شدت پسندی کے الزام میں پاپندی کے باوجود تنظیمیں نئے ناموں کے ساتھ دوبارہ فعال ہو جاتی ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے کے علاوہ جلسے جلوس بھی منعقد کرتی رہتی ہیں۔
ٹی ایل پی پاکستان کی پہلی بریلوی مکتبِ فکر کی جماعت یا گروہ ہو گا جس پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ ماضی میں سنی تحریک کو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کے سبب کئی سالوں تک واچ لسٹ پر رکھا گیا تھا مگر بعد میں ان کا نام ہٹا دیا گیا تھا۔