افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں اسلام آباد میں موجود ہے ۔ جو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرے گا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے پاکستان کے دورے کا مقصد امریکہ اور طالبان کے درمیان اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان وفد پاکستان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرے گا۔
طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا کہ طالبان کے وفد میں مذاکراتی ٹیم کے رہنماؤں سمیت پولیٹیکل آفس کے سینئر ارکان شامل ہیں اور یہ وفد چھ اکتوبر تک پاکستان میں قیام کرے گا۔
اُن کے بقول، طالبان کے وفد کی پاکستان آمد کا کوئی ایک ایجنڈا نہیں ہے۔ اس دورے کے دوران امن مذاکرات، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سمیت افغان مہاجرین کے مسائل اور دوطرفہ تعلقات پر بات چیت ہوگی۔
زلمے خلیل زاد سے ملاقات کا امکان
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد بھی پاکستان میں موجود ہیں۔
پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی پاکستان آمد کی تصدیق کی ہے۔
امریکی سفات خانے کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زلمے خلیل زاد کے دورے کا مقصد امریکہ اور پاکستان کے درمیان نیویارک میں ہونے والی بات چیت کو مزید آگے بڑھانا ہے۔
ادھر سہیل شاہین کا وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اتفاق سے اسلام آباد میں خلیل زاد بھی موجود ہیں اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان کے وفد کی اُن سے بھی ملاقات ہو۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان نے وائس آف امریکہ کے نمائندے جلیل اختر سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان اور زلمے خلیل زاد کا ایک ساتھ پاکستان میں موجود ہونا اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ افغان امن بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری پالیسی ہے کہ امریکہ کے ساتھ جو معاہدہ ہوچکا ہے اس پر قائم ہیں اور چاہیں گے کہ امریکہ بھی مذاکرات کی جانب لوٹ آئے۔
اُن کے بقول، افغانستان کے مسئلے کا عسکری حل نہیں ہے۔ امریکہ پہلے بھی فوجی طاقت کے ذریعے کئی بار کوشش کر چکا ہے۔ اس لیے ایک سال میں مذاکرات کے نو ادوار ہوئے ہیں جس میں دونوں فریقوں نے ایک معاہدے پر اتفاق کیا۔
اس سے قبل سہیل شاہین نے بدھ کو ایک ٹوئٹ کے ذریعے طالبان کے وفد نے دورۂ پاکستان کا اعلان کیا تھا۔
تاحال پاکستان کی حکومت نے افغان طالبان کے دورے کے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
افغان صدارتی محل کے ترجمان صادق صدیقی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امن ہماری ترجیح ہے۔ انہوں نے زلمے خلیل زاد یا افغان طالبان کا نام لیے بغیر کہا کہ امن مذاکرات کے نتائج اس وقت تک برآمد نہیں ہوں گے جب تک اس کی سربراہی افغان حکومت نہ کرے۔
امریکہ کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی کے بعد طالبان مسلسل علاقائی طاقتوں اور افغانستان کے پڑوسی ممالک کی قیادت سے رابطے کر رہے ہیں اور اس سلسلے کا یہ ان کا چوتھا دورہ ہوگا۔
اس سے قبل حالیہ چند روز کے دوران طالبان رہنماؤں نے روس، چین اور ایران کا بھی دورہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، طالبان کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ طالبان کا وفد پاکستان کی قیادت کو امریکہ کے ساتھ افغان امن مذاکرات کی معطلی کی وجوہات کے بارے میں بتائے گا۔
گزشتہ ماہ فریقین نے کہا تھا کہ وہ امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ تاہم، امریکی سیکورٹی حکام اور افغان حکومت نے ممکنہ امن معاہدے پر بعض خدشات کا بھی اظہار کیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل میں ایک بم دھماکے میں امریکی فوجی سمیت 11 افراد کی ہلاکت کے بعد اچانک امن مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
'رائٹرز' کے مطابق، طالبان رہنما کا کہنا ہے کہ افغان وفد پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے اس حالیہ بیان پر بھی بات کرے گا جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی پر آمادہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ افغان طالبان کے وفد کی اس دورے کے دوران عمران خان سے بھی ملاقات ہوگی یا نہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان میں 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان تقریباً ایک سال سے امن مذاکرات ہو رہے تھے۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان امن بات چیت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ طالبان کے روس، چین اور ایران کے دورے کے بعد پاکستان نے انہیں دورۂ اسلام آباد کی دعوت دی ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول، امریکہ بھی یہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے رابطے قائم کر کے اُنہیں امریکہ کے بعض مطالبات منوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔