افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ایک وفد نے بیجنگ میں افغانستان کے لیے چین کے نمائندہ خصوصی سے ملاقات کی ہے۔
اتوار کو ہونے والی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک سال سے جاری امن مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ افغان طالبان کا نو رکنی وفد بیجنگ گیا جہاں افغانستان کے لیے چین کے خصوصی نمائندے ڈینگ ژی سے اتوار کو ملاقات کی گئی۔
امریکہ سے مذاکرات کے حوالے سے طالبان کے وفد کے سربراہ ملا بردار نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بات چیت کے ذریعے جامع امن معاہدے کا معاملہ طے کر لیا تھا۔
ملا برادر کے بقول اگر امریکی صدر وعدوں کا پاس نہیں رکھتے تو افغانستان میں تشدد کے ذمہ دار بھی وہی ہوں گے۔
طالبان ترجمان کے مطابق طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ہی افغانستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کا راستہ ہے۔
طالبان ترجمان کے بقول چین اس کی حمایت کرتا ہے۔
چین کا طالبان کے وفد کے دورہ بیجنگ کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔
'طالبان مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے گومکو کا شکار'
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ چین بھی افغان تنازع کے سیاسی حل کا خواہاں ہے۔
طاہر خان نے مزید بتایا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغان امن بات چیت منسوخ کرنے کے بعد طالبان بھی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔
افغان امور کے ماہر کے بقول وہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے بارے میں گومکو کیفیت کا شکار ہیں۔
طاہر خان کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں طالبان کے چین، قبل ازیں روس اور ایران کے دوروں کا مقصد ان ممالک کو مذاکرات کی منسوخی کے بارے میں طالبان کا موقف واضح کرنا تھا جب کہ یہ ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ایک کڑی بھی ہے۔
سینئر صحافی نے دعویٰ کیا کہ طالبان کا پاکستان کے دورے کا بھی امکان ہے۔ اگرچہ اس کے بارے میں طالبان یا اسلام آباد کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد افغان طالبان کا وفد روس اور ایران کا دورہ کر چکا ہے۔
ان دوروں کے دوران طالبان نے ان ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کو امریکہ اور طالبان کی بات چیت منسوخ ہونے سے پہلے کی پیش رفت سے آگاہ کیا ہے۔
طالبان کے یہ دورے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب افغانستان میں رواں ہفتے صدراتی انتخابات ہوں گے۔ دوسری طرف افغانستان میں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
طالبان عہدیدار اگرچہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ امن بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امن بات چیت شاید افغانستان میں صدراتی انتخابات کے بعد ہی شروع ہوں۔
زلمے خلیل زاد کی نیویارک میں عمران خان سے ملاقات
دوسری طرف سے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے نیویارک میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔
اتوار کو ہونے والے اس ملاقات کے دوران امریکی سفارت کار نے افغان طالبان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے نتائج اور مستقبل کی توقعات کے بارے میں پاکستان کے وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق اس موقع پر وزیر اعظم نے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے افغان امن مذاکرات کے جلد دوبارہ شروع ہونے کی توقع کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنماؤں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے نو ادوار ہوئے تھے۔
ان مذاکرات کے ادوار کے حوالے سے بتایا جا رہا تھا کہ فریقین نے امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق کر لیا ہے۔
تاہم امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا یہ عمل یہ کہہ کر منسوخ کر دیا تھا کہ امن مذاکرات اور طالبان کے حملے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔