افغانستان کے ایک سینئر عہدے دار نے کہا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے پاس طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کا مسودہ پڑھنے کے لیے 20 منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں تھا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق، ایک سینئر عہدے دار نے بتایا ہے کہ اشرف غنی امن معاہدے کے مجوزہ مسودے سے زیادہ خوش نہیں تھے۔
عہدے دار کے مطابق، افغان صدر نے امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان امور زلمے خلیل زاد سے کہا کہ کیا یہ معاہدہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف نہیں ہے؟
جواب میں خلیل زاد نے کہا کہ یہ ہمارا اب تک کا سب سے بہترین معاہدہ ہے۔
’رائٹرز‘ نے افغانستان کی حالیہ صورتِ حال پر ایک تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ افغان صدر امن مذاکرات میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اپنی انتخابی مہم کے دوران افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ اب افغان امن عمل کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد افغان حکومت کی ذمہ داری ہوگی اور میں اس پر عمل کروں گا۔
’رائٹرز‘ کا کہنا ہے کہ طالبان سمیت دیگر مغربی طاقتیں بھی چاہتی تھیں کہ افغانستان کے صدارتی انتخابات ملتوی ہو جائیں، تاکہ افغان امن مذاکرات پر توجہ دی جا سکے۔
لیکن، مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد یہ لگ رہا ہے کہ انتخابات 28 ستمبر کو ہی ہو جائیں گے، جن میں اشرف غنی کی فتح کے واضح امکانات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
’رائٹرز‘ نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد اشرف غنی یہ دعویٰ کر سکیں گے کہ چونکہ ان کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے۔ لہٰذا، وہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں۔
یہ افغان حکومت کے لیے بہترین موقع ہو سکتا ہے کہ افغان حکومت امن مذاکرات میں شامل ہو جائے۔
مذاکرات کا مستقبل
افغان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ کابل یہ سمجھتا ہے کہ افغان امن مذاکرات میں طالبان کو بہت سی مراعات دی گئیں اور امریکہ نے اپنی حلیف افغان حکومت کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔
کابل میں افغان عہدے داروں اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امن معاہدہ منسوخ ہونے سے خلیل زاد کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اور ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان اور امریکہ میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے بھی یا نہیں۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکینزی کا کہنا ہے کہ طالبان نے مذاکرات میں غلط بیانی کی اور اب افغانستان میں امریکی فوج کی کارروائیوں میں تیزی آئے گی۔
’رائٹرز‘ کے مطابق، امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کی برطرفی کے فیصلے نے پیچیدگیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ واشنگٹن میں کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگلے سال ہونے والے امریکی انتخابات سے پہلے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی مشکل ہے۔
دوسری جانب مذاکرات سے متعلق افغان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگر مذاکرات دوبارہ شروع ہوتے ہیں تو پہلے کی طرح امریکہ کے طالبان کے ساتھ علیحدہ مذاکرات کے طریقہ کار کو نہیں دہرایا جا سکتا۔
اس کے برعکس طالبان کے ساتھ پہلے افغان حکومت جنگ بندی کا معاہدہ کرے گی اور پھر امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا پر طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔
افغان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ افغان حکومت بھی اس کا حصّہ ہو۔