رسائی کے لنکس

توہینِ مذہب قانون کا غلط استعمال 90 فی صد تک کم ہوا ہے: طاہر اشرفی کا دعویٰ


طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ حکومت مذہب کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کی وجوہات، اسباب اور محرکات کا جائزہ لے سکے گی۔ 
طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ حکومت مذہب کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کی وجوہات، اسباب اور محرکات کا جائزہ لے سکے گی۔ 

وزیرِ اعظم پاکستان کے نمائندۂ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مشرقِ وسطیٰ اُمور حافظ طاہر اشرفی نے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں مذہبی قوانین کا غلط استعمال اور مذہب کی جبراً تبدیلی کے واقعات ہوتے ہیں۔ تاہم حالیہ عرصے میں ایسے واقعات میں کمی آئی ہے۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں حافظ طاہر اشرفی نے بتایا کہ حکومت مذہب کے نام پر ہونے والے جرائم کے حالیہ واقعات پر مبنی ایک رپورٹ تیار کر رہی ہے جس میں مذہب کی جبراً تبدیلی، توہینِ مذہب قانون کے غلط استعمال، کسی غیر مسلم کے ساتھ زیادتی سمیت مذہبی اور مسلکی اختلافات کے واقعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

طاہر اشرفی نے دعویٰ کیا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو خاطر خواہ حد تک روکا کیا گیا ہے اور اس کی شق 295 سی کے تحت غلط مقدمات کے اندراج کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تنازعات زیادہ گھمبیر نہیں ہیں اور انہیں بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مطابق ملک میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز اور غیر مسلموں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

سعودی عرب یا ایران کی پاکستان میں کوئی مداخلت نہیں: طاہر اشرفی
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:43 0:00

انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں سے متعلق تنظیموں کی تشویش پر حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ یہ ادارے ملک و قوم کے لیے نہیں بلکہ کسی اور کو خوش کرنے کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جبری شادیوں کے حوالے سے اقلیتوں میں پائے جانے والے خوف کو ختم کرنے کے لیے وزارتِ انسانی حقوق مؤثر قانون سازی پر مشاورت کر رہی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ریاست کسی فرد کی ذاتی خواہش کی تکمیل کے لیے دینِ اسلام کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی سکتی ہے۔

'احمدی غیر مسلم لیکن بطور شہری اُنہیں حقوق حاصل ہیں'

وزیراعظم کے نمائندۂ خصوصی طاہر اشرفی نے کہا کہ آئین کے تحت احمدی غیر مسلم ہیں، لیکن بطور ریاست کے شہری انہیں تمام حقوق حاصل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کے شہری کے حق سے حکومت پر اُن کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اور تمام علما، احمدیوں سمیت مذہب کی بنیاد پر ہونے والے واقعات کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی توہینِ مذہب کا مرتکب ہوتا ہے تو 295 سی کا قانون اسی لیے بنایا گیا ہے۔ اس قانون کی موجودگی میں اگر کوئی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو یہ قطعاً درست نہیں ہے۔

طاہر اشرفی نے بتایا کہ انہوں نے بطور حکومتی رہنما ننکانہ صاحب اور پشاور میں احمدی افراد کے قتل کی اعلانیہ مذمت کی اور وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کو احمدیہ جماعت کے حالیہ افراد کے قتل کی تحقیقات کرنے کی ہدایات دی ہیں جس پر پیش رفت سامنے لائی جائے گی۔

ملک میں غیر مسلموں کی سرکاری عہدوں پر تعیناتی اور عوامی ردعمل کے باعث فیصلے واپس لینے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ جس ملک میں رہیں، اس کے آئین کو تسلیم کرنے سے اعلانیہ انکاری ہوں۔

انہوں نے کہا کہ احمدی پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں تو تمام مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں احمدیوں کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ (فائل فوٹو)
پاکستان میں حالیہ دنوں میں احمدیوں کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ آئینِ پاکستان کے تحت یہاں مسلمان کو بھی رہنا ہے اور غیر مسلم کو بھی، یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ اس ملک میں رہیں اور اس کے آئین اور قانون کو تسلیم کرنے سے اعلانیہ انکار کریں۔

یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے، لیکن احمدی برادری اپنے کو آپ غیر مسلم تسلیم نہیں کرتی ہے اور اپنے آپ کو ملک میں موجود دیگر اقلیتوں ہندو، عیسائی یا سکھ کے ساتھ شمار کرنے پر رضامند نہیں۔

طاہر اشرفی نے کہا کہ کسی اقلیتی رکن کے حکومتی عہدے پر تعیناتی پر اعتراض نہیں ہے بلکہ اعتراض یہ ہے کہ وہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے جس کے تحت حکومت کام کرتی ہے۔

ریاست میں مذہب کے کردار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قیام مذہب کی بنیاد پر ہوا ہے اور آئین میں درج ہے کہ قرآن و سنت سپریم لا ہو گا جس کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اسی لیے مدینہ ریاست کی بات کرتے ہیں کیوں کہ خواتین اور غیر مسلموں کو جو حقوق ریاست مدینہ نے دیے ہیں وہ کسی اور مذہب یا معاشرے میں نہیں ہیں۔

حافظ طاہر اشرفی کو حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان کا نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔
حافظ طاہر اشرفی کو حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان کا نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔

'اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا'

وزیر اعظم کے نمائندۂ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ سعودی عرب، اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل نہیں نکل آتا۔

اُن کے بقول پاکستان عالمی اُمور میں اسلامی تعاون تنظیم کے بانی رکن کی حیثیت سے مسلم ممالک سے مشاورت ضرور کرتا ہے لیکن کوئی ملک پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتا۔

خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے ان پر دباؤ ہے۔

انہوں نے ملک میں سعودی عرب اور ایران کی مداخلت کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ 'دشمن' جامع منصوبہ بندی کے تحت اُمتِ مسلمہ کے مابین اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی اور سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز (فائل فوٹو)
ایران کے صدر حسن روحانی اور سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز (فائل فوٹو)

طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایران یا سعودی عرب دہشت گردی یا فرقہ ورانہ تشدد فروغ نہیں دے رہے بلکہ یہ سازش بھارت کر رہا ہے۔

پاکستان کی فوج اور حکومت بھارت پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے کا ذمہ دار ہے جس کے لیے افغان سرزمین کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن بھارت اور افغانستان، پاکستان کے ان الزامات کی سختی سے تردید کر چکے ہیں۔

خیال رہے کہ ملک کے مختلف حلقوں میں مذہبی ہم آہنگی کے سلسلے میں ایران اور سعودی عرب کی مداخلت کی باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم حکومتی سطح پر اس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی۔

'اختلافات کے خاتمے کے لیے بین المذاہب و مسالک مکالمہ ناگزیز'

طاہر اشرفی نے کہا کہ مختلف مسالک کے درمیان مشترکہ چیزیں زیادہ ہیں، جب کہ اختلافی اُمور اتنے زیادہ نہیں ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اختلافات دُور کرنے کے لیے مختلف مذاہب اور مسالک کے درمیان بات چیت کا عمل شروع ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام اور مذہبی طبقات بہت محبت کرنے والے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپس کے اختلافات اور غلط فہمیوں کو دور کریں تاکہ ہر پاکستانی اپنے عقیدے کے مطابق آئین میں دیے گئے حقوق اور آزادیوں کے مطابق زندگی بسر کر سکے۔

XS
SM
MD
LG