تنازعات کی دلدل میں دھنسے اور معاشی بحران میں مبتلا، شام کے 93 لاکھ شہریوں کو اس موسم سرما میں خوراک کی بڑھتی ہوئی کمی کا سامنا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران امدادی قیمت پر فراہم کی جانے والی روٹی کے دام دو گنا ہو چکے ہیں اور وہ لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی سےمتعلق امور کے قائم مقام نائب سربراہ رمیش راجہ سنگھم نے بدھ کے روز سلامتی کونسل کو بتایا کہ شام میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں تاریخی سطح پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غریب ترین لوگوں کا انحصار امدادی قیمت پر ملنے والی روٹی پر ہے اور گزشتہ ماہ اس کی قیمتوں میں نہ صرف دگنا اضافہ ہوا ہے، بلکہ روٹی کے ایک پیکٹ کے وزن میں 15 فیصد کمی بھی ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت نے امدادی قیمت پر روٹی کی فراہمی میں کمی کر دی تھی، اور مارکیٹ میں ستمبر اور اکتوبر کے دوران اس کی قیمت میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بھی 44 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔
راجہ سنگھم کہتے ہیں کہ اس کا مطلب بہت سادہ ہے یعنی لوگوں کیلئے اپنے اہلِ خانہ کو خوراک مہیا کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ ایک عشرے سے جاری خانہ جنگی کے دوران، شامی باشندوں کی اتنی بڑی تعداد کی قابل خرید اور غذائیت بخش خوراک تک رسائی میں کمی نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہو چکی ہے۔
راجہ سنگھم کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال کے مقابلے میں 14 لاکھ شامیوں کو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا سامنا ہے، اور 93 لاکھ میں سے تقریباً 10 لاکھ شہریوں کو خوراک کے حصول میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
شام کی معیشت خاصی کمزور ہو چکی ہے، اور اس کے پاؤنڈ کی قدر بھی گزشتہ سال سے گر رہی ہے۔
جائے پناہ، کمبل اور ایندھن کی کمی
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اندرونِ ملک بے گھر ہونے والے 67 لاکھ شامی باشندوں کو مناسب چھت میسر نہیں اور ان میں سے زیادہ تر کے پاس موسم سرما سے بچاؤ کیلئے کمبل اور حرارت حاصل کرنے کیلئے ایندھن موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 30 لاکھ کے لگ بھگ افراد کو اس سلسلے میں امداد کی ضرورت ہو گی۔
لوگ اپنے گھروں کو گرم رکھنے کیلئے زیادہ تر ڈیزل کا استعمال کرتے ہیں، جس کی قیمتوں میں بھی 21 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
راجہ سنگھم نے متنبہ کیا کہ کرونا وائرس کے مریضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے شام کی آبادی کو ایک نئی مصیبت کا سامنا ہو سکتا ہے، کیونکہ یہاں صحت کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کا نظام بھی ناگفتہ بہ حالت میں ہے۔