عراق میں ایک طرف کرونا وائرس لوگوں کی جانیں لے رہا ہے تو دوسری طرف ملک کے بعض حصوں میں داعش کی سرگرمیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ عراقی عوام چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں اسلامی عسکریت پسند تنظیم نے عراق کے بعض حصوں میں خونریز کارروائیاں کی ہیں۔ اور بہت سے عراقی سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کے مقابلے میں داعش زیادہ مہلک ہے۔ خاص طور سے شمالی عراق داعش کی زد میں ہے۔
عراق میں کرونا وائرس کا پہلا کیس فروری میں ہوا تھا۔ عراقی وزارت صحت کے مطابق کرکک، دیالہ، صلاح الدین اور نینوا صوبوں میں اس وائرس کے ہاتھوں 13 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ انہیں علاقوں میں داعش کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 تک پہنچ چکی ہے۔
جمعہ کو عراق کی وزارت صحت نے اعلان کیا کہ اس وقت پورے ملک میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے۔ دارالحکومت بغداد میں سب سے زیادہ کیسیز ہیں۔ ملک کے اکثر حصوں میں لاک ڈاون ہے۔
ایک طرف کرونا وائرس کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں تو دوسری طرف داعش کے حملوں کا خوف لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کیے ہوئے ہے۔ کرکک کے ایک صحافی عزیز شکر کہتے ہیں کہ صرف دوپہر کو لوگ ضرورت کا سامان خریدنے کے لیے باہر نکلتے ہیں۔ باقی رات کو کرفیو لگ جاتا ہے۔
متنازع چار صوبوں میں نسلی اور مذہبی اعتبار سے خاصا تنوع ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ان علاقوں میں انتہا پسندوں کا بھی زور ہے۔ سن 2014 میں داعش نے موصل پر قبضہ کر لیا تھا۔ پھر پیش مرگا نے اس علاقے کو واپس لیا۔
بغداد میں قائم ایک تجزیاتی مرکز میں دہشت گردی کے امور کے ماہر ہشام ال ہاشمی نے وی اے او سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں داعش زیادہ طاقت ور ہے۔ بعض علاقوں میں نہ وفاقی سیکیورٹی فورس اور نہ پیش مرگا موجود ہے۔ پیش مرگا کردستان علاقائی حکومت کی فوج کو کہتے ہیں۔
داعش کی خلافت کے خاتمے کے ایک سال بعد عراق اور شام کے کچھ حصوں پر دہشت گردوں نے قدم جمانے شروع کر دیے ہیں۔ امریکی حکام کو بھی اندیشہ ہے کہ کہیں داعش ان علاقوں میں دوبارہ مستحکم نہ ہو جائے۔ مقامی انٹیلی جینس کے ذرائع کی اطلاعات کے مطابق تین ہزار کے قریب داعش عسکریت پسند اس علاقے میں چھپے ہوئے ہیں۔
اس علاقے کے امور کے ماہر حسان کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر قیادت کا خلا موجود ہے۔ یہ ایسی جگہوں میں پروان چڑھتے ہیں جہاں ان کے کئی دشمن ہوں اور وہ بھی منتشر۔
امریکہ کی زیر قیادت اتحاد نے مارچ میں کرونا وبا کی وجہ سے عراقی سیکیورٹی فورسز کی تربیت بند کر دی تھی۔ اتحادی افواج کے ترجمان کرنل مائےلیس بی کےگنز کہتے ہیں کہ داعش کسی علاقے پر قبضہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اتحادی فورسز ان کے خلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ تاہم کرد حکام کا کہنا ہے کہ اتحادی فورسز کی محدود کارروائیوں کی وجہ سے داعش پھر سر اٹھا رہا ہے۔ ان کے علاقوں میں وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں جو داعش کے جنگجو کر رہے ہیں۔ ابھی تک داعش نے کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
کردستان پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی کے رکن محسن دوسکے نے وی اے او کو بتایا کہ پچھلے دو ماہ سے داعش روزانہ وارداتیں کرتی ہے۔ اس علاقے میں کسی کی حکومت نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ علاقے میں پیش مرگا کی واپسی کے بغیر داعش کو کچلنا ممکن نہیں ہے۔ عراق کی حکومت نہ انہیں کنٹرول کر سکتی ہے اور نہ وہ پیش مرگا کو واپس بلائے گی۔
دوسری طرف عراقی حکومت کا کہنا ہے شہری علاقوں میں سیکیورٹی کی صورت حال قابو میں ہے۔ شہر سے باہر اکا دکا وارداتیں ہوتی ہیں۔ پچھلے ماہ نئے وزیر اعظم مصطفیٰ ال خدیمی نے داعش کی باقیات کو ختم کرنے کے لیے فوجی کمک بھیجی تھی۔
عراقی امور کے چند مبصرین کا کہنا ہے کہ متنازع علاقوں میں جہادیوں کے حملوں میں اضافے کا یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ خلافت بحال ہو رہی ہے۔ تاہم نسلی اور فرقہ وارانہ تنازعات سے داعش کو تقویت مل سکتی ہے۔
عراق میں امریکہ کے سابق سفیر ڈیوڈ میک نے وی اے او کو بتایا کہ داعش اب دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ تاہم اس علاقے میں داعش کو شکست دینے کے لیے ایک پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
انہوں کہا کہ بغداد اور اربل کو ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہو گا۔ اور اس علاقے میں مل کر داعش کا مقابلہ کرنے میں ہی بہتری ہے۔ سفیر ڈیوڈ میک کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کی موجودگی میں دونوں فریقوں کو کسی نتیجے تک پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے۔