عراق میں ایک طبی معاون سرمد ابراہیم، شیعہ ملیشیا سے تعلق رکھتے ہیں مگر اب وہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا سے مرنے والوں کو ان کے عقیدے کے مطابق دفناتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے اسلامی اور مسیحی عقیدوں کی آخری رسومات سے متعلق معلومات حاصل کی ہیں۔
سرمد اور اِمام علی کومبیٹ بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے دیگر رضاکار مسلسل یہ کام کر رہے ہیں۔ تاہم سرمد کہتے ہیں کہ اگر اس کام میں مزید اضافہ ہوا تو وہ شاید مرنے والوں کی آخری رسومات ان کے عقائد کے مطابق نہ کر سکیں۔
سرمد اور ان کے ساتھی شیعوں کے مقدس شہر نجف میں ایک قبرستان میں کام کرتے ہیں۔ یہ قبرستان ان لوگوں کیلئے وقف ہے جو کرونا وائرس سے ہلاک ہوتے ہیں۔
یہ قبرستان اہلِ تشیع کے سب سے بڑے مذبی رہنما آیت اللہ علی السیستانی کے فرمان پر بنایا گیا ہے۔ تاہم یہ دنیا کے سب سے بڑے قبرستان وادی السلام، جو اس سے منسلک ہے، بہت ہی چھوٹا نظر آتا ہے۔
عراق میں اس وائرس سے پھیلنے والی وبا سے، فروری میں پہنچنے کے بعد، اب تک دو سو سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
رضاکاروں کا کہنا ہے کہ انہیں ہر روز دو سے چار میتیں موصول ہوتی ہیں۔ وزارتِ صحت نے تصدیق کی ہے کہ صرف دو ہفتوں کے دوران، کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد تین ہزار سے بڑھ کر چھ ہزار ہو گئی ہے۔
کئی سال پہلے ،سرمد اور اس کے ساتھیوں نے، داعش کے خلاف جنگ کیلئے امام علی کومبیٹ بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی، جو کہ عراقی پاپولر موبی لائیزیشن فورسز کا حصہ ہے۔
یہ جذباتی اور جسمانی طور پر تھکا دینے والا کام ہے۔ میتیں اکثر رات گئے لائی جاتی ہیں۔ رضا کار، پوری طرح سے حفاظتی لباس پہنے، پہلے تو میتوں کو غسل دیتے ہیں اور پھر کالے کفن میں لپیٹ کر دوبارہ بکسوں میں لٹا دیتے ہیں، اور پھر انہیں دفنا دیتے ہیں۔
تاہم ٹیم میں ابھی تک درجن سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہو سکے۔ رضا کاروں کا کہنا ہے کہ وائرس سے مرنے والوں کی معیتیں دفنانے سے وہ اپنے خاندانوں اور ہمسایوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔
یہ قبرستان اس وجہ سے بنایا گیا ہے، کیونکہ مقامی قبائل اور لیڈروں نے وائرس سے مرنے والوں کو مقامی قبرستانوں میں دفنانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
اس ٹیم کی قیادت کرنے والے عبدل حسن خادم کا کہنا ہے کہ شروع میں میتوں کو واپس سرد خانے لے جایا جاتا تھا، جہاں وہ پندرہ روز تک پڑی رہتی تھیں، اور پھر انہیں بغیر مذہبی رسومات کے دفنا دیا جاتا تھا۔
خادم کہتے ہیں کہ اس قبرستان میں آخری رسومات کا پوری طرح سے احترام کیا جاتا ہے۔ رشتہ دار دور سے دفناتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک مقامی مدرسے کا طالب علم، نمازِ جنازہ کی قیادت کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں دو مسیحیوں کو بھی دفنانے کیلئے لایا گیا۔
ایک اور رضا کار ابو سجاد نے ایک مسیحی قبر کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکتے ہوئے کہا، ہم جانتے ہیں کہ وہ اپنے ہی قبرستان میں دفن ہونا پسند کرتے۔ لیکن وبا کی وجہ سے اب وہ یہاں سوئے ہوئے ہیں۔
مسیحیوں کی آخری رسومات کیسے ادا کی جاتی ہیں، تو اس بارے میں ہم نے مسیحیوں سے رہنمائی حاصل کی تا کہ انہیں ان کی رسومات اور روایات کے مطابق دفنایا جائے ۔ مجھے پہلے ان رسومات کا علم نہیں تھا۔ لیکن پھر ہم نے بالکل ویسا ہی کیا جیسے ہمارے مسیحی بھائیوں نے ہمیں بتایا۔