گذشتہ دنوں پاکستان کی ایک معروف براڈ کاسٹر، ڈرامہ نگار ،افسانہ نگار، کالم نگار اورمتعدد کتابوں کی مصنفہ شمع خالد جو وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کی تیاری کر رہی ہیں، اپنے ایک نجی دورے کے دوران وائس آف امریکہ واشنگٹن بھی آئیں اور اردو سروس کے عملے کے ارکان سے ملاقات کی اور پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی کے لیے انٹرویو ریکارڈ کرایا۔
ریڈیو پاکستان کی سابقہ ڈپٹی کنٹرولر اور براڈ کاسٹر شمع خالد نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ایک براڈ کاسٹر کے طور پر وہ اردو سروس کے براڈ کاسٹرز کے انتہائی محنت سے تیار کردہ معلوماتی اور بہترین انداز سے پیش کیے گئے پروگراموں کو ایک عرصے سے سن رہی ہیں اور اس سے متاثر ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ انہیں وائس آف امریکہ کی اردو سروس پر کتاب لکھنے کا خیال کیو ں آیا تو شمع خالد کا کہنا تھا کہ اردو زبان کی ترویج ، اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستی کے فروغ میں ادارہ جو کردار ادا کر رہا ہے اس کے بارے میں ریڈیو نشریات سے دلچسپی رکھنے والے سامعین تو بہت کچھ جانتے ہیں لیکن اردو بولنے اور پڑھنے والے وہ لوگ جو ریڈیو باقاعدگی سے نہیں سنتے ،وہ اس کےمتعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے اور نہ ہی اردو زبان میں کوئی ایسی مستند کتاب دستیاب ہےجہاں سے یہ معلومات حاصل کر ہوسکیں۔
شمع خالد ک اکہنا تھا کہ اردو زبان کی ایک رائٹر اور قلمکار کے طور پر انہوں نے سوچا کہ وہ یہ کام بہت آسانی سے کر سکتی ہیں ۔اسی لیےجب وہ پچھلے دنوںایک نجی دورےپر میسا چوسٹس آئیں تو انہوں نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے براہ راست رابطہ کرنے اور اس کے کارکنوں سے بالمشافہ ملاقات اور گفتگو کے لیےخصوصی طور پر واشنگٹن آنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں سروس کے کارکنوں سے براہ راست ملاقات کا موقع ملا اور یہاں کےسسٹم کو قریب سے دیکھنے کے بعد اب پاکستان جاتے ہی اس پر کتاب لکھنے پر کام شروع کر دیں گی۔
شمع خالد نے اپنے قلمی اور زندگی کے سفر کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ان کی قلمی اور عملی زندگی کا آغاز اس وقت ہو گیا تھا جب وہ ساتویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ اسی عمر میں ان کی شادی ہوئی اور یہی وہ عمر تھی جب انہوں نے اپنا پہلا افسانہ تحریر کیا ۔ اور پھر اس کے بعد کالمز اور افسانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان کی تحریریں پاکستان کے بڑے بڑے رسالوں اور اخبارات میں شائع ہونے لگیں اور آج بھی ہو رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے افسانوی مجموعوں میں پتھریلے چہرے ، گیان کا لمحہ، بے چہرہ شناسائی ، گمشدہ لمحوں کی تلاش ، خزاں میں لندن ، اوراق گم گشتہ اور داستان ہونے کے بعد شامل ہیں۔
شمع خالد نے کہا کہ وہ اب اپنے ادبی سفر کا رخ اصلاحی اور بچوں کے ادب پر مرکوز کر رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بچوں، خاص طور پر لڑکیو ں کو سنڈریلا اور شہزادیوں کی دنیا کی ایسی کہانیوں سے نکالنا چاہتی ہیں جن میں کسی ایسی شہزادی یا لڑکی کا ماڈل پیش کیا جاتا تھا جو مدد کے لیے ہمیشہ کسی شہزادے کی منتظر رہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ ایسی کہانیاں لکھنا چاہتی ہیں جن میں لڑکیوں کو حقیقی دنیا کا سامنا کرنے ، اپنی مد د آپ کرنے اور اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونے کی حوصلہ افزائی ہو۔
نئے دور کی لکھنے والی خواتین کے لیے شمع خالد کا پیغام تھا کہ وہ جو کچھ لکھیں سچ لکھیں اور ہر کام بہت زیادہ ریسرچ کے ساتھ کریں ۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک طویل مسافت طے کر کے اردو سروس کو دیکھنے اور اس کے کارکنوں سے ملنے کے لیےآئیں اور ادارے کی کار کردگی اور سسٹم کا براہ راست مشاہدہ کیا۔