سپریم کورٹ میں صحافیوں کی طرف سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے معاملے پر چیف جسٹس نے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ درخواست گزار پریس ایسوسی ایشن کے علاوہ باقی صحافیوں نے درخواستیں واپس لے لیں۔
سماعت کے دوران کمرہٴ عدالت میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی امین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صحافیوں کا کام صحافت کرنا ہے سیاست کرنا نہیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی ہدایت پر صحافیوں کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے تین رکنی بینچ قائم کیا گیا جس کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کر رہے تھے۔ جب کہ بینچ کے دیگر ممبران میں جسٹس قاضی امین اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
پیر کو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار صحافی کمرہٴ عدالت میں موجود تھے۔
درخواست گزار عبد القیوم صدیقی روسٹرم پر آئے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عبد القیوم صدیقی آپ بھی درخواست گزار ہیں۔ اس پر صحافی نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جو واقعات پیش آئے ان پر وہ بہت رنجیدہ ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی درخواست واپس لیے رہے ہیں۔
اس پر عدالت نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست ازخود نوٹس لینے کے لیے تھی اور جب ایک بار عدالت نے ازخود نوٹس لے لیا تو پھر درخواست گزار کا مقدمہ عدالت کا مقدمہ بن جاتا ہے۔ اب یہ کیس عدالت کا مقدمہ بن چکا ہے۔ بے شک عدالت میں کوئی بھی صحافی نہ ہو یہ کیس چلایا جائے گا اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
کیس کے دوسرے درخواست گزار پریس ایسوسی ایشن کے صدر امجد بھٹی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ وہ اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں۔
امجد بھٹی نے کہا کہ معاشرے میں تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے لیکن صحافیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ انہیں نوکریوں سے جبری طور پر نکال دیا جاتا ہے۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صحافی معاشرے کا ضمیر ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور کسی طور اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اگر صحافی سچ بولیں گے تو کوئی ادارہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔
آخر میں جسٹس قاضی امین نے کہا کہ صحافیوں کا کام صحافت کرنا ہے جیسے بطور جج وہ سیاست نہیں کر سکتے۔ ایسے ہی صحافی سیاست نہیں کر سکتے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں صحافیوں کو جو حقوق دیے گئے ہیں وہ بھارت یا پھر امریکہ کے آئین میں بھی حاصل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں نے پہلے ایک لہر میں درخواستیں دیں اور اب ایک لہر میں ہی واپس لے رہے ہیں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد، چیئرمین پیمرا، اٹارنی جنرل اور دیگر اعلیٰ حکام کو طلب کیا۔
صحافی عامر میر نے اپنی درخواست واپس لینے کے لیے لکھی گئی درخواست میں کہا کہ ان کی پیٹیشن کو بقول ان کے فٹبال بنا کر اس کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کے بعد وہ شدید مایوس ہوئے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی درخواست واپس لے رہے ہیں۔
صحافی قیوم صدیقی نے درخواست واپس لیتے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتہ کے واقعات پر وہ رنجیدہ ہیں اور ان کے الفاظ میں انہیں انصاف کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔
کمرہٴ عدالت میں موجود صحافی عمران وسیم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں صحافی منقسم نظر آئے۔ صحافی کی نصف تعداد ایسی تھی جو سپریم کورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہی تھی اور نصف تعداد اس کیس کو چلانا چاہتی تھی۔
بعض صحافیوں کا خیال تھا کہ صحافیوں کا صرف جسٹس فائز عیسیٰ پر اعتماد کرنا اور باقی ججز پر عدم اعتماد درست نہیں ہے۔ البتہ اس صورتِ حال پر صحافی آپس میں ہی ایک دوسرے سے تکرار کرتے رہے کہ ہونا کیا چاہیے۔
رواں ماہ 20 اگست کو سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی عدالت میں ایک کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد صحافیوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کو درخواستیں پیش کیں جن میں صحافیوں کو مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے پر ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔
عدالت نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکام کو طلب کیا تھا۔ البتہ بعد میں سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لینے کے معاملے پر پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جس نے دو سماعتوں کے بعد فیصلہ دیا کہ ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ دوران سماعت کوئی اہم معاملہ سامنے آنے پر بھی چیف جسٹس کو ہی معاملہ بھجوایا جائے گا جو اس پر ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔
اس فیصلے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کی عدالت کی طرف سے لیا گیا ازخود نوٹس واپس لے لیا گیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے صحافیوں کے تحفظات کے بارے میں ازخود نوٹس لیا اور تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
اس بینچ کی پہلی سماعت کے دوران پانچ درخواست گزاروں میں سے چار نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں اور اب پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی درخواست پر سماعت جاری رہے گی۔