رسائی کے لنکس

صحافیوں کے تحفظ کا مجوزہ بل وفاقی کابینہ کے سامنے پیش


صحافیوں کے حقوق یقینی بنانے کے حق میں پشاور میں کیا گیا مظاہرہ (فائل)
صحافیوں کے حقوق یقینی بنانے کے حق میں پشاور میں کیا گیا مظاہرہ (فائل)

پاکستان میں صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے مجوزہ بل وفاقی کابینہ میں پیش کر دیا گیا ہے، جسے جامع شکل دینے کے لئے وزارت قانون کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

منگل کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کردہ بل وفاقی وزارت انسانی حقوق نے تیار کیا ہے، جبکہ اس سے قبل ایک بل وفاقی وزارت اطلاعات بھی اسی مقصد کے لئے تیار کر چکی ہے۔

وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات، فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ کابینہ نے اس بل کی "اصولی منظوری" دے دی ہے، جس میں، ان کے بقول، صحافیوں کے تحفظ سے متعلق تمام تحفظات کو دور کیا گیا ہے۔ صحافیوں کو دہشتگردی کے درپیش خطرات، جانوں کے بیمے اور دیگر اہم امور پر قانون سازی کی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کابینہ نےاس مقصد کے لئے تیار کردہ دونوں بلوں کو اکھٹا کرکے وزارت قانون کو ایک جامع بل تیار کرنے کی ہدایت دی ہے، تاکہ یہ بل قائمہ کمیٹیوں کو بھیجا جا سکے۔ تاہم، پارلیمنٹ کی منظوری اور صدر مملکت سے دستخط کے بعد ہی یہ قانون کی شکل اختیار کر سکے گا، جس میں اب بھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔

بل میں کیا ہے؟

وزارت انسانی حقوق کی جانب سے تیار کردہ مجوزہ بل کے آغاز میں آئین پاکستان اور بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاعات کی رسائی کے حق کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمہوری معاشرے میں صحافیوں کی آزادی اور تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اور اس مقصد کے لئے قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک کے قیام پر زور دیا گیا ہے، تاکہ صحافیوں کی آزادی کو یقینی اور انہیں تمام جائز حقوق فراہم کئے جا سکیں۔

مجوزہ قانون کے دوسرے حصے میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے حقوق پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی شخص یا ادارہ چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری اپنے کسی عمل سے صحافیوں کے تحفظ اور انہیں زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ اور ان کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی گئی ہے، جبکہ حکومت کو صحافیوں کی آزادی، غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قومی سلامتی اور انسداد دہشتگردی سے متعلق قوانین صحافیوں کی آزادی میں خلل نہ ڈال سکیں، جس میں جبری گرفتاری یا حراست کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اسی طرح تنازعات کے شکار علاقوں میں بھی صحافیوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو دھمکیوں، ہراسگی اور ظلم و ستم کے بغیر کام کرنے کو یقینی بنانے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی گئی ہے۔

صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق کمیشن اگر اس ضمن میں کوئی خلاف ورزی دیکھے گا تو اسے ذمہ داران کے خلاف موزوں ایکشن لینے کے لئے حکومت کو سفارش کرنے کا اختیار ہوگا۔

مجوزہ بل کے مطابق، وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ کمیشن آزاد اور خودمختار ہوگا، جس کا چئیرمین سپریم کورٹ کا سابق جج مقرر کیا جائے گا۔ کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے چار نمائندے، نیشنل پریس کلب کا نمائندہ اور ایک وزارت انسانی حقوق کا نمائندہ بھی شامل ہوگا۔ کمیشن کسی بھی درخواست پر وفاقی اور صوبائی حکومت، انٹیلیجنس ایجنسیوں سے معلومات طلب کر سکے گا۔ کمیشن کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے جو حقائق جمع اور جرم کی نوعیت کے پیش نظر معاملہ مجسٹریٹ عدالت کو بھیجنے کا اختیار رکھے گا۔

بل میں صحافیوں کو اپنی خبر کے ذرائع کو محفوظ رکھنے کا حق دیا گیا ہے اور حکومت کو صحافیوں کی شخصی آزادی کو یقینی بنانے کا بھی پابند کیا گیا ہے۔ اسی طرح صحافیوں کو ہراساں کرنے، انہیں تشدد اور عدم برداشت کے رویوں سے حکومتی سطح پر تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ان کی مناسب بلا معاوضہ تربیت، ان کی زندگی اور صحت کی انشورنس کی ذمہ داری میڈیا مالکان پر عائد کی گئی ہے۔

صحافیوں کے اعتراضات کیا ہیں؟

ادھر صحافیوں نے اس عمل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار اسے تاخیری حربوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں درجنوں صحافیوں کو مارا جا چکا ہے، جس میں بلوچستان سے صحافیوں کی بڑی تعداد کی ٹارگٹ کلنگ بھی شامل ہے۔ اس لئے حکومت کو اس بل کو فوری فوقیت دی جانی چائیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کا دائرہ اختیار بڑھایا جائے اور اسے وفاقی دارلحکومت کے ساتھ صوبائی دارلحکومتوں میں بھی کام کرنا چائیے۔

صحافی رہنماوں کا کہنا ہے کہ وزارت انسانی حقوق کی جانب سے مجوزہ بل کی تیاری میں صحافیوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، جس سے بل کو مزید مؤثر بنایا جا سکتا تھا۔ پاکستان فیڈریشن آف جرنلسٹس کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کو جامع قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ جو تجاویز حکومت کو بھیجی گئی تھیں انہیں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن، ان کے خیال میں یہ مجوزہ بل پہلے پیش کئے گئے مجوزہ قوانین سے نسبتاً بہتر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس بارے میں صحافیوں کو اعتماد میں لے لیتی تو اس کو اور بہتر بنایا جا سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بل کے مندرجات کے تحت صحافیوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کا اختیار مجسٹریٹ کو دیا گیا ہے۔ لیکن، صحافیوں کی تجاویز کے مطابق ایسے مقدمات سیشن جج کی سطح پر چلائے جانے چائیں، کیونکہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مجسٹریٹ کو باآسانی اثر و رسوخ کا شکار کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ تکنیکی طور پر یہ بل کابینہ سے منظور نہیں ہوا بلکہ اس بل کو دوسرے بل سے ملانے کے عمل سے اب ایک اور مرحلے میں قانون سازی داخل ہوگئی ہے، جس سے تین سال سے مؤخر بل مزید تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔

ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ بل میں صحافیوں کی ملازمت کے تحفظ کو یقینی بنانے سے متعلق کوئی شق شامل نہیں کی گئی اور اسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو درپیش مسائل میں یہ سر فہرست مسئلہ ہے کیونکہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں تھرڈ پارٹی سسٹم کے تحت ملازمتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ ادارہ صحافیوں کو اپنا ملازم تصور ہی نہیں کرتا اور انہیں کسی بھی وقت ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔

صحافیوں کے مطابق، ملک میں ریاستی اداروں سے بھی آزادی صحافت کو اکثر خدشات اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے تدارک کے لئے بل میں واضح طور پر کوئی میکینیزم موجود نہیں۔ ملک میں سیاسی پینترے بازی اور دیگر حربے استعمال کرنا عام ہے جس کی بڑی مثال سندھ میں صحافیوں کے خلاف 60 سے زائد مقدمات میں انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کرنا ہے۔ صحافی رہنماؤں کے مطابق اس مقصد کے لئے محض کسی عمل کو غلط قرار دینے کے بجائے قانون میں اس سے تحفظ اور اس کے خلاف واضح عمل موجود ہونا چائیے۔

پاکستان صحافت کے لئے خطرناک ملک کیوں ہے؟

یاد رہے کہ پاکستان میں گذشتہ سال کم سے کم سات صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ہلاک ہوئے جبکہ ایک درجن سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جبکہ اس سال بھی اب تک دو صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 1992 سے 2019 تک کم از کم 61 صحافیوں کو پاکستان میں قتل کیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں کام کرنے والے صحافیوں کو ڈرانے، دھمکانے، ہراساں کیے جانے اور انہیں جبر کا نشانہ بنانے کے واقعات بھی عام ہیں۔

2019 کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو صحافیوں کے لیے ایشیا پیسیفک ریجن میں دوسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان کو صحافت کے لئے خطرناک ملک قرار دئیے جانے کے ساتھ ورلڈ پریس فریڈم کی فہرست میں 180 ممالک میں سے 142 نمبر پر رکھا گیا ہے، جس سے یہاں صحافت کو درپیش خطرات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG