رسائی کے لنکس

صحافیوں پر حملے کرنے والے نہ پکڑے گئے تو ان کا نام لینے پر مجبور ہوں گے: حامد میر


حامد میر کو رواں برس مئی میں جیو نیوز نے آف ایئر کر دیا تھا۔
حامد میر کو رواں برس مئی میں جیو نیوز نے آف ایئر کر دیا تھا۔

پاکستان کے سینئر اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستان میں جب بھی صحافی پر حملہ ہوتا ہے اسے انصاف نہیں ملتا۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں صرف نام کی جمہوریت ہے جب کہ ان کے بقول آئین پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا۔

خیال رہے کہ حامد میر کو نجی نیوز چینل 'جیو' نے رواں برس مئی میں ریاستی اداروں کے خلاف مبینہ طور پر سخت زبان استعمال کرنے کے بعد آف ایئر کر دیا تھا۔

اتوار کو برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں دیے گئے انٹرویو میں حامد میر نے کہا کہ اُن پر پابندی کے ذمے دار وزیر اعظم عمران خان نہیں بلکہ وہ تو ان کے بقول خود ایک بے بس وزیرِ اعظم ہیں۔

حامد میر کادعوی تھا کہ وہ پاکستان میں سنسر شپ کی زندہ مثال ہیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ "میرے نہ صرف ٹی وی پر آنے پر پابندی ہے بلکہ میں جس اخبار سے کئی برسوں سے منسلک ہوں وہاں میں کالم بھی نہیں لکھ سکتا۔"

خیال رہے کہ اس نوعیت کے الزامات کے جواب میں حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور حکومت کی جانب سے اُن پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جاتا۔

'مشرف دور میں صرف ٹی وی پر بین تھا اب اخبار میں کالم بھی نہیں لکھ سکتا'

حامد میر کا کہنا تھا کہ جب پرویز مشرف اقتدار میں تھے "تو مجھے ٹی وی پر بین کر دیا گیا۔ لیکن اخبار میں لکھنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، اب عمران خان وزیرِ اعظم ہیں اور مجھ پر لکھنے پر بھی پابندی ہے۔"

حامد میر نے کہا کہ "میں کئی حملوں میں بچ چکا ہوں لیکن کبھی انصاف نہیں ملا، کئی مرتبہ مقدمات درج ہوئے۔ میں ایک صحافی کے ساتھ کھڑا تھا۔ جب بھی صحافی پر حملہ ہوتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے آج تک کسی کو نہیں پکڑ سکے۔"

اُن کے بقول اگر یہ لوگ نہیں پکڑے جائیں گے تو وہ ان افراد کا نام لینے پر مجبور ہوں گے جن کے بارے میں وہ سوچتے ہیں کہ وہ حملہ آور ہیں۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ "مجھ پر کراچی میں جو قاتلانہ حملہ ہوا اس میں مجھے چھ گولیاں لگیں جن میں سے دو اب بھی میرے جسم میں موجود ہیں۔ اس وقت کی حکومت نے تین رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔ میں نے اس کمیشن کے سامنے ایک بارے نہیں دو بار اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔"

موجودہ دور میں پاکستان میں صحافی ہونا کتنا مشکل ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:16:52 0:00

اُن کے بقول "میں نے زخمی ہونے کے باوجود اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ میں نے اس وقت ایک انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کا نام لیا۔ جب کمیشن نے اس شخص کو بلوایا تو اس شخص نے کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ اسد طور نے بھی انٹیلی جنس ادارے کا نام لیا لیکن ان کو بھی کبھی نہیں بلایا گیا۔ ہم مطالبہ کر رہے تھے کہ اسد طور کے ساتھ انصاف کیا جائے۔"

پاکستان کی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات کی اعلٰی سطحی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ایسے جرائم میں ملوث ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔

پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اسد علی طور پر ہونے والے حملے کے بعد ہارڈ ٹاک میں دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان میں کچھ صحافی بیرونِ ملک سیاسی پناہ کے لیے ریاستی اداروں پر الزام عائد کرتے ہیں۔

فواد چوہدری سمیت دیگر حکومتی وزرا اکثر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کو مکمل آزادی حاصل ہے اور حکومت میڈیا کی مثبت تنقید کو سراہتی ہے۔

ادھر پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس نے بھی صحافی اسد علی طور کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اُن پر حملے سے اظہارِ لاتعلقی کیا تھا۔

آئی ایس آئی نے اسد طور پر حملے کی تحقیقات میں مدد دینے کی بھی پیش کش کی تھی۔

'سب کو علم ہے کہ حامد میر کے ساتھ کیا ہوا'

صحافی اسٹیفن سیکر نے سوال کیا کہ کیا پاکستان میں انٹیلی جنس ادارے صحافیوں پر حملوں میں ملوث ہیں جس پر حامد میر نے کہا کہ عالمی اداروں کی رپورٹس موجود ہیں، انٹیلی جنس اداروں پر صحافیوں کے اغوا اور حملوں کا الزام لگایا گیا۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ میں عمر قید کی سزا کا سامنا کرنے کو بھی تیار ہوں کیوں کہ اگر وہ مجھے سزا دیتے ہیں تو پوری دنیا کو علم ہو جائے گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ سب کو علم ہے کہ حامد میر کے ساتھ کیا ہوا، سب کو علم ہے کہ حامد میر پر پابندی کس وجہ سے لگی، پاکستان میں قانون کی بالادستی نہیں ہے۔

اسٹیفن سیکر نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ جیسے اپنے مؤقف سے ہٹ رہے ہیں اور معافی بھی مانگ رہے ہیں جس پر حامد میر نے کہا کہ میں نے صرف وضاحت دی تھی کہ میں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام نہیں لیا۔ دوسرا شاید میرا لہجہ سخت تھا اور یوں تاثر دیا گیا کہ جیسے میں کسی ادارے کو موردِ الزام ٹھیرا رہا ہوں۔ درحقیقت ایسا نہیں تھا میں صرف چند افراد کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ جو میڈیا کی آواز کو بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جیو اور جنگ گروپ کے بارے میں ایک سوال پر حامد میر نے کہا کہ میں مایوس ہوں لیکن اس گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن سات ماہ تک حراست میں رہے۔ ان کو سپریم کورٹ سے ضمانت ملی اور نام ای سی ایل پر ہے۔ میرے ادارے نے مجھ پر پابندی لگائی لیکن میں ان کی پوزیشن سمجھ سکتا ہوں۔

'عمران حکومت میڈیا مخالف قوانین لانا چاہتی ہے'

حامد میر نے دعوی کیا کہ پاکستان میڈیا فریڈم میں 139 نمبر پر تھا، اب 145 نمبر پر ہے۔ ایسا پاکستان کی ساکھ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ عمران حکومت میڈیا مخالف قوانین لانا چاہ رہی ہے جو ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "2007 میں مجھ پر پابندی لگی تو عمران خان نے میرا ساتھ دیا، میں نے انہیں اپنے ٹی وی شو میں بہت وقت دیا۔ لیکن جب وہ وزیرِ اعظم بنے تو ان کو کہا کہ میڈیا کو آزادی دیں۔ لیکن ان کے دورِ حکومت میں سابق صدر کے انٹرویو پر پابندی لگی۔"

خیال رہے کہ حامد میر نے جولائی 2019 میں سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا انٹرویو کیا تھا جسے جیو نیوز نے مبینہ طور پر دباؤ کے باعث نشر نہیں کیا تھا۔

حامد میر نے الزام لگایا کہ ایک طرف حکومت جرنلسٹ پروٹیکشن بل لاتی ہے تو وہیں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے صحافت پر قدغن لگانی کی کوشش کی جاتی ہے۔

پاکستانی حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ جرنلسٹ پروٹیکشن بل کے ذریعے صحافیوں پر تشدد جیسے واقعات کی روک تھام ہو سکے گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ جرنلسٹ پروٹیکشن بل کے ذریعے صحافیوں پر تشدد میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جا سکیں گی۔

میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کے ذریعے میڈیا کے کردار کو مزید وسعت دی جا رہی ہے۔ لہذٰا میڈیا پر قدغن لگانے کا تاثر درست نہیں ہے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ وہ بہت عرصے سے اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی بیٹی اور بیوی پہلے ہی پاکستان چھوڑ چکی ہیں جب کہ اُنہیں بھی یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ملک چھوڑ دیں۔ لیکن بقشل ان کے،'میں پاکستان سے نہیں جاوں گا'.

XS
SM
MD
LG