جنوبی افریقہ میں ماضی میں نسل پرستی کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے والے افراد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک یادگار کا افتتاح کیا گیا ہے جو ایک متروک پھانسی گھاٹ پر قائم کی گئی ہے۔
جمعرات کو یادگار کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما کا کہنا تھا کہ ملک میں نسل پرست حکومت کے دور میں اس پھانسی گھاٹ پر 130 سے زائد سیاسی قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں سے کئی نسل پرستی کے خلاف نغمے گنگناتے ہوئے پھانسی چڑھے۔
دارالحکومت پریٹوریا کے مرکزی جیل میں تعمیر کی گئی اس یادگار کے ساتھ ایک عجائب گھر بھی قائم کیا گیا ہے جس میں پتھروں سے تعمیر کردہ وہ کھولیاں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی ہیں جن میں پھانسی کے منتظر قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔
اپنے خطاب میں صدر زوما کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے دور میں قیدیوں کو "دہشت گرد اور فسادی" سمجھا جاتا تھا لیکن قیدیوں کے خان دانوں اور دیگر افراد کے لیے یہ لوگ "جدوجہدِ آزادی کے سپاہی" تھے جو ایک آزاد اور جمہوری جنوبی افریقہ کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے تھے۔
جنوبی افریقہ کے حکام کا کہنا ہے کہ نسل پرستی کے دور میں ملک میں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سے زائد لوگوں پھانسی دی گئی۔
سال 1995ء میں جنوبی افریقہ پہ اقلیتی سفید فام باشندوں کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی نسل پرستی کے دور کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا جس کے بعد حکومت نے پھانسی کی سزا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ پھانسی گھاٹ بند کردیا تھا۔