اقوامِ متحدہ کی ایچ آئی وی اور ایڈز کے پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011ء وہ سال تھا جب اس مرض سے چھٹکارا پانے کی جدو جہد میں زبردست کامیابی ہوئی۔ نئی رپورٹ کا عنوان ہے، How to get to Zero: Faster, Smarter, Better۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایچ ائی وی کے انفیکشن ، اور ایڈز کے نتیجے میں ہونے والی اموات، دونوں، اس دور کے مقابلے میں جب یہ بیماری عروج کو پہنچی ہوئی تھی، اب سب سے نیچی سطح پر آ گئی ہیں۔
اقوام ِ متحدہ کے ایڈز پروگرام کے Peter Ghys کہتے ہیں کہ Faster, smarter, better یہ تین الفاظ ہیں جن سے ہماری اس خواہش کا اظہار ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی کی وبا کو کم کیا جائے، اور اس سے جو نقصان پہنچ رہا ہے، اس کو جہاں تک ممکن ہے، کم کر دیا جائے۔ دنیا کے جن ملکوں نے اس شعبے میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، ہم ان کی مثالیں دوسرے ملکوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تا کہ ان میں بھی ایسا ہی کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1997ء سے اب تک نئے لوگوں میں ایچ آئی وی کے انفیکشن کی شرح میں 21 فیصد کی کمی آئی ہے، اور ایڈز سے متعلق اموات 2005ء سے اب تک 21 فیصد کم ہو گئی ہیں ۔
Ghys کہتے ہیں کہ اس کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ جن لوگوں کو علاج کی ضرورت ہے آ ج کل ان میں سے تقریباً نصف تعداد کا علاج ہو رہا ہے۔ یہ تعداد تقریباً 66 لاکھ بنتی ہے۔ علاج میں استعمال ہونے والی کچھ دواؤں کو بیماری کو ماؤں سے بچوں کو لگنے سے روکنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ آج کل ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ علاج کے مستحق ہیں۔ افریقہ اب بھی اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ایچ آئی وی/ایڈز کے وائرس کے ساتھ جو لوگ زندہ ہیں، ان میں سے 68 فیصد افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقے میں ہیں۔ وائرس سے متاثر ہونے والے نئے لوگوں کی 70 فیصد تعداد بھی اسی علاقے میں ہے۔ آج بھی ایچ آئی وی/ایڈز کے مرض میں گرفتار لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد، یعنی 56 لاکھ جنوبی افریقہ میں رہتی ہے۔ ان اعداد و شمار کے باوجود، زیریں صحارا کے علاقے سے اچھی خبریں ملی ہیں۔ یہاں کچھ خوشگوار رجحانات بھی ظاہر ہوئے ہیں اور علاج بہت موئثر ثابت ہوا ہے۔
یہ وہ زمانہ ہے جب عطیات دینے والے ملک مالی مشکلات میں گرفتار ہیں اور بجٹ میں کمی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اقوامِ متحدہ کے ایڈز پروگرام نے ان شعبوں میں توجہ مرکوز کی ہے جو سب سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں اینٹی ریٹرووائرل علاج اور ماؤں سے بچوں میں اس بیماری کے وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے اقدامات شامل ہیں۔
انٹرنیشنل ایچ آئی وی/ایڈز الائنس نے اس رپورٹ کو حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔ اس الائنس کے سینیئر مشیر، گیٹاؤ مبورو کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے ایک اجتماعی کوشش کے اتنے کامیاب نتائج دیکھے ہیں۔ اس اجتماعی کوشش میں حکومتیں، سول سوسائٹی، کمیونٹیاں، سائنسداں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن شامل ہیں۔ مبورو کہتے ہیں کہ بعض علاقوں میں بچاؤ کے طریقوں پر باقاعدگی سے عمل کیا جا رہا ہے ۔ ان کے مطابق ’’رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ افریقہ میں زیریں صحارا کے کئی ملکوں میں، ایچ آئی وی کے علاج کی سہولتوں کو پوری آبادی کو مہیا کرنا ممکن ہو گیا۔ ان ملکوں میں بوستو وانا اور نمیبیا شامل ہیں۔ ہماری بڑی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ فنڈز کی موجودہ سطح پربھی اچھے نتائج بر آمد ہو رہے ہیں۔‘‘
تا ہم مبورو رپورٹ سے متفق ہیں کہ بدنامی کا خوف اور امتیازی سلوک اس وبا کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یوگینڈا میں ایک ہم جنس پرست نوجوان ایچ آئی وی کے ٹیسٹ کے لیے کسی ڈاکٹر کے پاس جا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے کسی دوسرے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات رہے ہیں کیوں کہ مقامی قوانین کے تحت یہ جرم ہوگا۔ ہم جانتے ہیں ایشیا کے بہت سے ملکوں میں بھی، جنسی خدمات فراہم کرنے والوں کو جنھیں ایچ آئی وی انفیکشن کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، بہت سی مشکلات در پیش ہوتی ہیں۔ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے اور پولیس انھیں تنگ کرتی ہے۔ ان حالات میں آبادی کے اس پسماندہ طبقے کے لیے ایچ آئی وی کے علاج معالجے کی سہولتیں حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘
انٹرنیشنل ایچ آئی وی/ایڈز الائنس نے کہا ہے کہ ایسے پروگراموں کے لیے جو کارگر ثابت ہوئے ہیں، مسلسل فنڈز ملتے رہنے چاہئیں۔ اس نے انتباہ کیا ہے کہ فنڈز میں کمی سے وہ ترقی خطرے میں پڑ سکتی ہے جو اب تک ہوئی ہے۔ 2010ء کے آخر میں، ایچ آئی وی /ایڈز میں مبتلا افراد کی تعداد تین کروڑ دس لاکھ اور ساڑھے تین کروڑ کے درمیان تھی۔ نئے مریضوں کی تعداد تقریباً 27 لاکھ تھی، اور ایچ آئی وی /ایڈز سے اٹھارہ لاکھ افراد ہلاک ہوچکے تھے۔