عالمی ادارہٴ صحت نےناروا حالات کو انسانی حقوق کی چُھپی ہوئی ہنگامی صورتِ حال قرار دیا ہے جِن کا سامنا ذہنی امراض میں مبتلہ افراد کو کرنا پڑتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں ذہنی اور جسمانی معذوری کے شکار لوگ انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ذہنی صحت کی سہولتوں کے ادارے ذہنی مریضوں کو ناقص دیکھ بھال فراہم کررے ہیں، جو اُن کی صحتیابی میں اکثر رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
عالمی ادارہٴ صحت میں ذہنی پالیسی کی رابطہ کار مشیل کہتی ہیں کہ ذہنی صحت کے اداروں میں اکثر مریضوں کو بے حد ناروا سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مریض غیر انسانی حالات میں زندہ رہتے ہیں اور اُنھیں غیر معیاری علاج مہیا کیا جاتا ہے۔
اُن کے الفاظ میں: ’مثال کے طور پر، لوگوں کو ضرورت سے زیادہ دوائیں دے دی جاتی ہیں، تاکہ وہ آسانی سے بات مانتے رہیں اور اُنھیں سنبھالنا آسان ہو۔ اُنھیں سیل میں بند کیا جاتا ہے یا دِنوں یا مہینوں کھانے اور پانی کے بغیر بند رکھا جاتا ہے۔ اُن سے انسانوں کا رابطہ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی اُنھیں باتھ روم کی سہولت دی جاتی ہے۔ اور سب سے سنگین بات یہ ہے کہ یہ سلوک وہ لوگ کرتے ہیں جو اِن مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں‘۔
عالمی ادارہ ٴ صحت کا کہنا ہے کہ صحت ِ عامہ کے کارکنوں کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے، اور گروپ کے مطابق، کارکن یہ سمجھنے سے قاصر ہوتےہیں کہ ذہنی امراض کے شکار لوگوں کے بھی حقوق ہیں جِن کا احترام کیا جانا چاہیئے، نہ کہ خلاف ورزی۔
وہ کہتی ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کے ’کوالٹی رائٹس‘ منصوبے کا مقصد اِن خلاف ورزیوں سے نمٹنا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اِس منصوبے کا اولین مقصد ذہنی مریضوں کےحقوق اور اُن غیر انسانی حالات کو بہتر بنانا ہے جِن کا اُنھیں سامنا ہو سکتا ہے۔