رسائی کے لنکس

افریقی ممالک ماحولیاتی مسائل سے نبٹنے کے لیے سرگرم


افریقی ممالک ماحولیاتی مسائل سے نبٹنے کے لیے سرگرم
افریقی ممالک ماحولیاتی مسائل سے نبٹنے کے لیے سرگرم

افریقی ممالک نے جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں جاری اقوامِ متحدہ کی 'کلائمیٹ کانفرنس' کے تمام شرکا ء سے مطالبہ کیا ہے کہ دنیا کو مزید ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔

ماحولیاتی مسائل پر غور کے لیے عالمی ادارے کی جانب سے ہر سال اس کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 'کوپ 17' کے عنوان سے اس برس ہونے والی کانفرنس کا میزبان ہونے کے ناطے برِ اعظم افریقہ کے مندوبین کانفرنس کے شرکا کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ترقی پذیر خطوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ دنیا کے دیگر تمام خطوں کے مقابلے میں سب سے کم کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج افریقہ سے ہوتا ہے اور یوں ماحولیاتی آلودگی میں افریقی ممالک کا حصہ دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔

لیکن اس کے باوجود ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں جنم لینے والے سیلاب، خشک سالی، قحط اور دیگر شدید موسمی آفات کا سب سے زیادہ نشانہ افریقہ کو بننا پڑ رہا ہے جن میں سائنس دانوں کے مطابق زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید شدت آئے گی۔

بدھ کو کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع پہ قائم بین الحکومتی پینل کے سربراہ ڈاکٹر راجندرا پاچوری کا کہنا تھا کہ محتاط اندازوں کے مطابق افریقہ میں 2020ء تک ساڑھے سات کروڑ سے 25 کروڑ کے لگ بھگ افراد پانی کی قلت کی شکار ہوں گے جو ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جنم لے گی۔

ڈاکٹر ماچوری نے اجلاس کے مندوبین کو بتایا کہ 2020ء تک بارانی زراعت پر انحصار کرنے والے بعض افریقی ممالک کی پیداواری صلاحیت میں 50 فی صد تک کمی آنے کا امکان ہے۔

ان خدشات کے پیشِ نظر کانفرنس میں شریک 54 افریقی ممالک کا نمائندہ گروپ 1997ء میں طے پانے والے 'کیوٹو پروٹوکول' پر عمل درآمد کی مدت میں اضافے کے لیے کوشاں ہے جس میں معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک کو کاربن کے اخراج میں نمایاں کمی لانے کا پابند کیا گیا ہے۔

افریقی مندوبین 'گرین کلائمیٹ فنڈ' کے فوری نفاذ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں ماحول دوست منصوبوں کو وسائل فراہم کرنا ہے۔

افریقی ممالک کے گروپ کا اصرار ہے کہ مذکورہ فنڈ کے وسائل ترقی یافتہ ممالک کے نجی اداروں اور ترقیاتی تنظیموں پر خرچ کرنے کے بجائے ان کی ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں اور منصوبوں کو فراہمی یقینی بنائی جائے۔

XS
SM
MD
LG