رسائی کے لنکس

اسرائیلی وزیرِ اعظم پر غزہ جنگ کے بعد کا منصوبہ پیش کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • اسرائیلی وزیرِ دفاع گیلنٹ کا بیان جنگ سے تنگ ہونے والے اسرائیلی شہریوں سمیت موجودہ و سابق اسرائیلی حکام کی پریشانی کی ترجمانی کرتا ہے، تجزیہ کار
  • یرغمالوں کی بازیابی اور جنگ بندی معاہدہ تعطل کا شکار ہے کیوں کہ اب تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا ہے کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی، سینئر تجزیہ کار میراو زونسزین
  • جنگ کے بعد اپنی تنظیم کے خاتمے کی کسی بھی تجویز کو مسترد کر دیں گے، سربراہ حماس
  • کوئی بھی کوشش یا معاہدہ مستقل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا، قیدیوں کے تبادلے، متاثرین کی اپنے علاقوں میں واپسی اور محاصرے کے خاتمے کے بغیر نہیں ہو گا، اسماعیل ہنیہ
  • اس وقت جنگ بندی کے ثالث امریکہ، مصر اور قطر کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، نمروڈ گورین

اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو پر غزہ جنگ کے بعد کی صورتِ حال کا منصوبہ پیش کرنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

نیتن یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے کے بغیر جنگ کے بعد کی منصوبہ بندی نا ممکن ہے۔ تاہم وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کے انتظام کے حوالے سے کوئی منصوبہ پیش نہ کرنے پر انہیں رواں ہفتے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

گیلنٹ کا بدھ کو ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی فوج یا سویلین اتھارٹی کے ذریعے غزہ کا انتظام سنبھالنے کی مخالفت کرتے ہیں اور جنگ کے آغاز کے بعد سے کابینہ میں متواتر یہ معاملہ اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی جواب نہیں مل سکا ہے۔

وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور وزیرِ دفاع گیلنٹ کے درمیان غزہ جنگ پر اختلافات اور عوامی تنقید کے بعد نیتن یاہو نے جمعرات کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'بات چیت' کے لیے اپنے وزیرِ دفاع کو طلب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار میراو زونسزین کا کہنا ہے کہ وزیرِ دفاع گیلنٹ کا بیان جنگ سے تنگ ہونے والے اسرائیلی شہریوں سمیت موجودہ و سابق اسرائیلی حکام کی پریشانی کی ترجمانی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گیلنٹ کا بیان نہ تو حیران کن ہے اور نہ ہی نیا لیکن میرے خیال میں حکومت میں شامل بعض لوگوں کے لیے یہ معاملہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔

زونسزین کے مطابق یرغمالوں کی بازیابی اور جنگ بندی معاہدہ تعطل کا شکار ہے کیوں کہ اب تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا ہے کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی۔

اسرائیل حماس اور اس کی قیادت کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے جب کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ کے بعد اپنی تنظیم کے خاتمے کی کسی بھی تجویز کو مسترد کر دیں گے۔

اسماعیل ہنیہ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ کوئی بھی کوشش یا معاہدہ مستقل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا، قیدیوں کے تبادلے، متاثرین کی اپنے علاقوں میں واپسی اور محاصرے کے خاتمے کے بغیر نہیں ہو گا۔

دوسری جانب اسرائیل نے غزہ جنگ بندی سے متعلق کوئی بھی وعدہ کرنے سے گریز کیا ہے اور وہ غزہ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر فیلو نمروڈ گورین کے مطابق بنیادی طور پر فریقین کے درمیان جنگ بندی کے لیے اپنی اپنی حکمتِ عملی ہے۔

گورین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جنگ بندی کے ثالث امریکہ، مصر اور قطر کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور جنگ بندی معاہدہ نہ صرف غزہ کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ لبنان کے لیے بھی ضروری ہو چکا ہے۔

ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لبنان کی سرحد پر کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے جہاں ہزاروں افراد گولہ باری کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔

گورین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس وقت مستقل جنگ بندی ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ امید ہے کہ جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے کے پہلے مرحلے پر کام شروع ہو جائے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو سات ماہ ہو چکے ہیں جس دوران 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسرائیلی فورسز مسلسل یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ غزہ میں کارروائیوں کے دوران 14 ہزار سے زائد عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔

گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ حماس کے حملے میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک اور ڈھائی سو کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG