ہلاکتیں، معاشی ابتری اور پوری دنیا میں لاک ڈاؤن، یہ کرونا وائرس کے کچھ ایسے اثرات ہیں جن سے ہر شخص پریشان ہے۔ لیکن اس وبا کے پھیلنے سے کچھ ایسی تبدیلیاں بھی واقع ہوئی ہیں جو دنیا کے لیے خوش گوار ہیں اور جن کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے منفی اثرات کے ساتھ کچھ ایسے مثبت اثرات بھی آئے ہیں جو خوش آئند ہیں۔ آئیے ان میں سے چند ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔
ہاتھ دھونے کی پابندی
کرونا وائرس ہمیں باقاعدگی سے ہاتھ دھونے کی پابندی سکھا رہا ہے جو کسی بھی شخص کی اچھی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
بیماریوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے امریکی ادارے 'سینٹر فور ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن' کے مطابق جراثیم انسان کے جسم میں ہاتھوں کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں۔ انجانے میں کسی بھی سطح یا چیز کو چھونے سے جراثیم ہاتھوں پر منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر غذا کے ساتھ آپ کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا ماہرین صحت یہ تاکید کرتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں کو صاف رکھا جائے اور کوئی بھی چیز کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں۔
کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے اس سے بچاؤ کی سب سے اہم احتیاطی تدابیر میں بار بار ہاتھ دھونا بھی شامل ہے۔ سو اس وبا سے بچاؤ کے دوران اگر یہ عادت ہماری زندگی کا حصہ بن جائے تو اس کے لیے ہمیں کرونا وائرس کا شکریہ ادا کرنا ہو گا۔
گلیوں اور سڑکوں کی صفائی
کرونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے دنیا بھر میں سڑکوں، گلیوں اور محلوں کی صفائی کی جا رہی ہے اور جراثیم کش ادویات کا اسپرے بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی مختلف شہروں میں سڑکوں اور عمارتوں پر جراثیم کش ادویات کا اسپرے کیا جا رہا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی
کرونا وائرس کی وبا کے شدت پکڑتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو کرونا وائرس کے باعث صنعتوں کا بند ہونا اور کئی ملکوں اور شہروں میں لاک ڈاؤن ہے جس کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں واضح فرق پڑا ہے۔
خام تیل کی زیادہ پیداوار اور کم استعمال کی وجہ سے عالمی منڈی میں قیمتوں میں واضح فرق پڑا ہے۔
اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان میں بھی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 15 روپے فی لیٹر تک کم کی گئی ہیں۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کی ایک اور وجہ سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کے معاملے پر جاری چپقلش بھی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا کریڈٹ کرونا وائرس کو بھی جاتا ہے۔
تیل کی قیمتیں کم ہونے سے معیشت کو فائدہ
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد یہ توقع بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ تیل درآمد کرنے والے ملکوں کی معیشت کو اس کا خاصا فائدہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان بھی تیل درآمد کرنے والے ملکوں میں شامل ہے اور اس کی درآمدات میں سب سے زیادہ تیل کا حصہ شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشی تجزیہ کار یہ امید بی ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کی یہی صورتِ حال برقرار رہی تو پاکستان کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں کمی
کرونا وائرس کے باعث جہاں صنعتیں بند ہونے سے معیشت کا پہیہ رک گیا ہے وہیں دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں لاک ڈاؤن کے سبب گاڑیوں کے استعمال میں بھی واضح کمی آ گئی ہے۔
کرونا وائرس کے سبب دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی اپنے گھروں میں بند ہے۔ اس سب کا نتیجہ پیٹرولیم مصنوعات کے کم استعمال کی صورت میں نکل رہا ہے جس کا فائدہ ماحولیات کو بھی پہنچ رہا ہے۔
آلودگی میں کمی
چونکہ کرونا وائرس کے سبب انڈسٹریاں بند ہیں اور گاڑیاں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ لہٰذا دنیا بھر میں آلودگی میں نمایاں کمی آ رہی ہے اور مختلف آلودہ ترین شہریوں کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہو رہا ہے۔
کراچی کا ایئر کوالٹی انڈیکس ان دنوں 58 اے کیو آئی ہے جس کا مطلب ہے کہ کراچی کی فضا میں آلودگی معتدل درجے کی ہے جس کا کوئی نقصان نہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 400 اے کیو آئی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ یعنی لاہور کی فضا انتہائی آلودہ ہو گئی تھی۔ لیکن اب لاہور کی ایئر کوالٹی 76 اے کیو آئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈسٹریاں اور گاڑیاں بند ہونے سے آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
پنجاب ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق اگر انڈیکس کی ریڈنگ صفر سے 50 کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے ہے آب و ہوا بہت اچھی ہے۔ اگر 50 سے 100 کے درمیان ایئر کوالٹی انڈیکس ہو تو آب و ہوا معتدل ہے اور اس کے نقصانات نہیں ہیں۔
لیکن اگر یہ ریڈنگ 400 سے 500 کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے کہ فضائی آلودگی زیادہ بڑھ گئی ہے جب کہ لاہور میں یہ ریڈنگ متعدد بار 580 تک پہنچ چکی ہے۔
ٹیلی ورکنگ سیکھنے کا موقع
کرونا وائرس کے سبب زیادہ تر اداروں کے ملازمین یا تو چھٹیوں پر ہیں یا وہ گھر سے ہی کام کر رہے ہیں۔ گھر سے کام کرنا پاکستان میں متعدد لوگوں کے لیے ایک منفرد تجربہ بھی ہے چونکہ یہاں دفاتر میں کام کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔
لیکن اس وبا سے بچنے کے لیے لوگوں کو ایک طرف گھروں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ تو وہ اپنی سہولت کے لیے ٹیلی ورکنگ کے طریقوں اور نت نئی ایپلی کیشنز سے آشنا ہو رہے ہیں۔