محدود وسائل، زائد آبادی اور مالی مشکلات کے باعث غزہ اور مغربی کنارے کے لوگوں میں کرونا وائرس کی تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے۔
غزہ کی سڑکوں پر اب بھی آمد و رفت جاری ہے۔ کھانے پینے کے سامان کی دوکانیں کھلی ہیں۔ خصوصی حفاظتی لباس پہنے کارکن جراثیم کش ادویات سڑکوں پر چھڑک رہے ہیں مگر قریب کھڑے دوکاندار منہ ڈھانپنے سے بھی بے نیاز ہیں۔
چند ہفتے پہلے تک غزہ کے لوگ امید کر رہے تھے کہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ سرحد پر تیرہ برس کی سخت ناکہ بندی کووڈ 19 کو فلسطینی علاقے میں داخل ہونے سے روک لے گی اور اس کے بیس لاکھ لوگ اس سے محفوظ رہیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔
25 سالہ رعید ردوان الاظہر یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتوار کو حکام نے اعلان کیا کہ 79 اور 63 برس کے دو لوگوں میں کرونا وائرس پایا گیا ہے اور اب وہ سرحد پر قائم قرنطینہ مرکز میں ہیں۔ یہ دونوں مصر کے ذریعے پاکستان سے غزہ کی پٹی پہنچے تھے۔
اب حکام بتا رہے ہیں کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں کووڈ 19 کے 59 مریض ہیں۔ اسرائیل میں 1440 مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ غزہ کے رہائیشی ابو سالم کہتے ہیں، "غزہ دنیا کا سب سے گنجان آباد علاقہ ہے۔ اس لئے لوگوں میں سماجی فاصلہ رکھنا مشکل ہے۔"
15 مارچ سے ایسے2000 لوگوں کو جو مصر کے ساتھ رفاح اور ایریز کی سرحد پار کر کے اسرائیل پہنچے تھے ان کو گھروں میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے.
ڈاکٹرجیرلڈ راکن شواب فلسطینی علاقے کے لئے عالمی ادارہ صحت کے عہدیدار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس سے متاثر لوگوں کی تعداد میں اضافے کے خطرے کے پیشِ نظر ضروری طبی سامان کیلئے رقوم جاری کر دی گئی ہیں۔
غزہ کے ڈاکٹروں کو تشویش ہے کہ ایسا نہ ہو کہ سامان آتے آتے کرونا وائرس کے خلاف بچاؤ ممکن نہ رہے۔
غزہ میں وزارتِ صحت کی ڈئریکٹر جنرل لیب اینڈ بلڈ بنکس ایمان حلبی کہتی ہیں وائرس پوری طرح پھیلا تو ہر ماہ ہمیں 7500 سرجیکل ماسک کی ضرورت ہو گی جبکہ ہمارے پاس صرف ایک ہزار ماسک ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد غزہ کے سکول 15 مارچ سے بند ہیں۔
ہفتے کے روز وزارت مذہبی امور نے صبح کے تمام اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے اور لوگوں سے کہا ہے کہ وہ آپس میں مصافحہ نہ کریں اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں۔
"غزہ میں اتنے لوگ ہیں کہ آپ گھر سے نکلیں تو کوئی اپنا دوست یا عزیز مل ہی جاتا ہے۔ اور اگر آپ ان سے مصافحہ نہ کریں یا فاصلہ رکھیں تو لوگ برا مانتے ہیں" یہ کہنا ہے رمزی اوکاشا کا، جو ایک استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں سکول بند ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے میں 20 لاکھ بچوں کیلئے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ایک مسئلہ ہے۔
اساتذہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آن لائن کورسز مہیّا کریں مگر بہت سے بچوں کے پاس کمپیوٹر ہی نہیں ہے اور وہ عزیزوں یا ہمسائیوں کے ہاں جا کر پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں خطرہ بھی ہے اور بینڈ وڈتھ پر بوجھ بھی بڑھتا ہے۔ اوکاشا کہتے ہیں کیا کیجئے گا جب بجلی 24 گھنٹے میں صرف 5 یا 6گھنٹے کیلئے آتی ہو اور سینکڑوں لوگ وینٹیلیٹرز پر ہوں۔