پاکستان میں قبائلی علاقوں سے متعلق مجوزہ اصلاحات پر عمل درآمد پر تاخیر پر قبائلی عمائدین اور بعض سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل جرگہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے وہ وسط جنوری تک فاٹا کے صوبہ خیبر پختونحواہ میں انضمام کا باضابطہ اعلان کرے۔
جرگہ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں قبائلی عوام اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف مارچ کریں گے۔
پاکستان کی ایک مذہبی و سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کی میزبانی میں یہ جرگہ بدھ کو پشاور پریس کلب میں منعقد کیا گیا اور اس کی صدارت جماعت اسلامی کے راہنما لیاقت بلوچ نے کی۔
خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی نمائندگی سینئر صوبائی وزیر عنایت خان نے کی۔ جبکہ کے عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس میں منظور ہونے والی متفقہ قرار داد میں حکومت سے قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخواہ میں انضمام، قبائلی علاقہ جات میں نافذ 'فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر ) کا خاتمہ ، پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ کار کو قبائلی علاقوں تک توسیع دینےکا مطالبہ کیا ہے۔
قرارداد میں 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے صوبہ خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں فاٹا کے لیے نشستیں مختص کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
فاٹا میں اصلاحات، خاص طور پر قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم پر کرنے پر کچھ اختلافات ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتیں اس حق میں ہیں کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔
تاہم حکومت کی دو اتحادی جماعتیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا مؤقف ہے کہ فاٹا کے انضمام کے فیصلے سے قبل ریفرنڈم کرایا جانا چاہیے۔
سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کی وفاقی کابینہ پہلے ہی منظوری دے چکی ہے لیکن اس بارے میں قانون سازی ہونا باقی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور وہاں کے عوام کو ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والوں کی طرح بنیادی حقوق فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔