وفاقی حکومت اور قبائلی عمائدین کےجرگہ میں فاٹا اصلاحات بل پر معاملات طے نہ ہوسکے، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے قبائلی جرگہ کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوگئی جب کہ قبائلی عمائدین اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے فاٹا سپریم کونسل جرگے کے وفد نے ملاقات کی جس میں فاٹا اصلاحات بل کےحوالے سے معاملات طے نہ ہو سکے۔ تاہم، حکومت اور فاٹا سپریم کونسل جرگہ نے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
ملاقات میں فاٹا سپریم کونسل نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا۔ فاٹا سپریم کونسل نے وزیر اعظم کو بتایا کہ فاٹا کے عوام خیبر پختونخوا میں انضمام نہیں بلکہ اپنا الگ تشخص برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
ملاقات کے بعد، رُکن ’فاٹا گرینڈ الائنس‘، بریگیڈئیر (ر) نذیر نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکومت اور فاٹا عمائدین کے درمیان تعطل برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا احتجاج اپنی اعلان کردہ تاریخ پر کریں گے اور دھرنا بھی دیں گے۔
بریگیڈئیر (ر) نذیر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عباسی سے ہونے والی ملاقات میں بہت تفصیل سے بات چیت ہوئی ہے اور دونوں اطراف نے اپنے مؤقف بیان کیے۔ لیکن، فی الحال کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے اور ہمارے اختلافات برقرار ہیں۔
وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ 70 سال کا معاملہ 7 منٹ میں حل نہیں ہوسکتا؛ ’’امید کرتے ہیں کہ معاملہ بات چیت سے طے کر لیں گے۔‘‘
بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ ’’قبائلی عمائدین نے وزیر اعظم کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے،حکومت معاملہ افہام و تفہیم اور اتفاق رائے سے حل کرنا چاہتی ہے، یہ بھی نہیں چاہتے کہ معاملہ 7 مہینے یا 7 سال لٹکا رہے، ہمارے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت نہیں اسلئے مل جل کر چلنا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اصل مقصد فاٹا کو قومی دھارے میں لانا ہے۔ فاٹا پر سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی نے اپنا مؤقف بیان کر دیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں کل قومی اسمبلی اجلاس میں فاٹا اصلاحاتی بل پیش ہونا مشکل ہے۔‘‘
فاٹا سپریم کونسل نے مطالبات تسلیم نہ کئےجانے پر 30 دسمبر کو احتجاج اور دھرنے کی کال دے رکھی ہے۔
دوسری جانب، قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے فاٹا اصلاحات بل ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر اپوزیشن نے ایک بار پھر احتجاج کرتے ہوئے اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔
اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ’’حکومت فاٹا اصلاحات بل ایوان میں نہیں لائی۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم بھی ایوان میں بیٹھنے کے بجائے لابی میں بیٹھیں۔ بعد ازاں اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے باعث ملتوی کردیا گیا‘‘۔
سینیٹ میں بھی اپوزیشن ارکان نے قومی اسمبلی میں بل نہ لانے پر اجتجاج کیا ہے۔ شبلی فراز کے توجہ مبذول کرانے کے نوٹس پر وزیر ’سیفران‘ عبدالقادر بلوچ نے سینیٹ کو بتایا کہ ’’فاٹا کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس ایشو پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے اور حکومت یہ کریڈٹ کسی کو نہیں لینے دے گی۔‘‘
سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم کرنے میں حکومت سنجیدہ نہیں اور فاٹا کے نام پر فنڈز لئے جاتے ہیں۔ جو فنڈز فاٹا کے نام ہوتے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچتے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ جان بوجھ کر قومی اسمبلی میں یہ بل نہیں لایا جا رہا۔
اپوزیشن ارکان پہلے بھی کئی بار فاٹا اصلاحات بل ایجنڈے میں شامل نہ کیے جانے پر نہ صرف ایوان میں احتجاج کرچکے ہیں، بلکہ انہوں نے کئی بار اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔