پاکستان نے پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے بیانات کے تناظر میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق یہ درخواست پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے نام ایک خط میں کی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے خط میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارت نے اپنی اندرونی سیاسی وجوہات کی بنا پر پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات کو تیز کر دیا ہے جس کی وجہ سے خطے کا ماحول کشیدہ ہے۔
وزیرِ خارجہ نے اپنے خط میں سیکریٹری جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ "بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی کے پیشِ نظر میں آپ کی توجہ ہمارے خطے میں سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔"
خط میں کہا گیا ہے کہ خطے کی اس کشیدہ صورتِ حال کو معمول پر لانے کے لیے مناسب اقدامات ضروری ہیں اور اقوامِ متحدہ اس کشیدگی کی کم کرنے کے لیے مداخلت کرے۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ نے اپنے خط میں عالمی ادارے کے سربراہ سے کہا ہے کہ وہ بھارت سے پلوامہ واقعے کی آزادانہ اور قابلِ اعتماد تحقیقات کرنے کا کہیں۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے خط میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ بھارت دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں کی تقسیم سے متعلق سندھ طاس سمجھوتہ ختم کر سکتا ہے جو وزیرِ خارجہ کے بقول "ایک سنگین غلطی ہو گی۔"
پاکستان نے اقوامِ متحدہ سے مزید کہا ہے کہ بھارت کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ صورتِ حال کو مزید کشیدہ بنانے سے گریز کرے اور کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان اور کشمیری عوام سے بات چیت کرے۔
گزشتہ ہفتے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں بھارت کی سکیورٹی فورسز کے لگ بھگ 50 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے۔
لیکن پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے اپنے خط میں کہا ہے کہ پلوامہ میں ہونے والا حملہ بھارتی بیانات کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک مقامی شخص نے کیا اور بغیر کسی تحقیقات کے اس واقعے کا الزام پاکستان پر لگانا مضحکہ خیز بات ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
نئی دہلی کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے لیکن اسلام آباد بھارت کے ان تمام الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی طرف سے سامنے آنے والے جارحانہ بیانات جنوبی ایشیا میں سلامتی کی صورتِ حال کے لیے کسی طور سود مند نہیں۔
ماضی میں بھی حملوں کے ایسے واقعات اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بنتے رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ، امریکہ اور چین سمیت عالمی طاقتیں جنوبی ایشیا کے دونوں ہمسایہ ملکوں پر باہمی معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے آئے ہیں۔