پاکستان میں سال 2015ء کا آغاز دو ہفتے قبل ہی پیش آنے والے ملکی تاریخ کے بدترین دہشت گرد واقعے کی بازگشت سے ہوا اور ملک بھر میں لوگوں کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہوئے طالبان کے مہلک حملے نے دکھ اور افسوس میں مبتلا کیے رکھا۔
لیکن سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے اس واقعے کے بعد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے فیصلہ کن کارروائیوں کا عزم کیا گیا اور کلی اتفاق رائے سے شدت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کاروائیاں تیز کر دی گئیں۔
رکن قومی اسمبلی طلال چودھری کہتے ہیں، ’’بچوں کے خون میں اتنی طاقت تھی کہ انھوں نے ہمیں سیاسی طور پر اور ہمارے اداروں کو اصولی طور پر متحد کیا، ہم یہاں بٹے ہوئے تھے اچھے طالبان اور برے طالبان میں ہم ابہام کا شکار تھے کہ یہ جنگ ہماری ہے یا کسی اور کی جنگ لڑ رہے ہیں تو یہ ابہام ختم ہوا اور ایک ارادہ کیا گیا اور پھر قومی لائحہ عمل میں نہ صرف اپنی غلطیوں کی نشاندہی کی بلکہ اس کا حل بھی تجویز کیا۔۔۔ایک سال میں جتنا کام ہوا ہے شاید پچھلے 13، 14 سال میں ہم نے اتنا کام نہیں کیا۔‘‘
لیکن ان کوششوں کے باوجود بھی دہشت گردوں کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں ہلاکت خیز حملے کیے جاتے رہے جن میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں سمیت دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ حکومتی عہدیداران انھیں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہائیوں سے جڑ پکڑتی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے۔
سینیٹر عبدالقیوم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ’’میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔۔۔ قومی لائحہ عمل کے نتائج سامنے آئے ضرب عضب کی صورت میں بھی، کراچی کی صورتحال کی صورت میں بھی، بلوچستان میں جو قتل و غارت گری تھی اس معاملے میں بھی۔۔۔انتہا پسندی اب ویسی نہیں رہی لیکن یہ بہت مشکل مسائل ہیں یہ جو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی لعنتیں ہیں یہ وقت کے ساتھ پنپتی رہی ہیں اور یہ چند دنوں یا مہینوں میں ختم نہیں ہو سکتیں ایک رجحان کو بدلنے کی ضرورت ہے جو کہ میرا خیال ہے کیا جا رہا ہے۔‘‘
ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے عفریت کو قابو میں کرنے کی کارروائیاں تو جاری ہی تھیں کہ پڑوسی ملک افغانستان میں شدت پسند گروپ داعش کی طرف سے قدم جمانے کو پاکستان کے لیے ایک نئے خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
لیکن عہدیداروں کا اصرار ہے کہ پاکستان میں اس گروپ کا کوئی وجود نہیں اور اس کا سایہ بھی یہاں برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ ’’ہم اس جماعت کو دہشت گرد جماعت سمجھتے ہیں اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ پاکستان میں اس کا وجود نہیں ہے۔۔۔بین الاقوامی سطح پر ہم نے ہمیشہ تعاون کیا ہے بین الاقوامی برادری کے ساتھ دہشت گردی کو ختم کرنے میں۔ اس میں انٹیلی جنس کا تبادل بھی شامل ہے اور ہم ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ ہم مربوط کارروائی کے حق میں ہیں مشترکہ کارروائی کے حق میں نہیں۔‘‘
بحیثیت مجموعی سال 2015ء پاکستانیوں کے لیے دہشت گردی سے محفوظ منزل کی طرف سفر کے لیے ایک بہتر سال ثابت ہوا اور شہریوں نے بھی ماضی کی نسبت تحفظ کے پروان چڑھتے احساس پر قدرے اطمینان کا اظہار کیا۔
پریم کماراسلام آباد کے رہائشی ہیں اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ 2016ء پاکستان کے لیے زیادہ بہتر سال ثابت ہو گا۔
’’دہشت گردی کم ہوئی ہے، لوگ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ جس طرح 2014ء میں بڑے بڑے واقعات ہوئے اسکول پر حملہ ہوا یا کسی اور جگہ پر اس کی نسبت دیکھا جائے تو 2015ء بہت محفوظ رہا اور آنے والا سال بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ اسی طرح بہتر ہوگا۔‘‘
ندیم صدیقی کا ماننا ہے کہ اب دہشت گردوں کی مالی معاونت کو بھی ختم کرنا ہو گی۔
’’اب دہشت گردی کی دیگر اشکال کو بھی ہمیں ختم کرنا ہوگا۔ ایک تو دھماکے تھے قتل و غارت گری تھی، ایک مالی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ رقوم کی غیر قانونی منتقلی یہ بھی ایک دہشت گردی ہے لازمی نہیں کہ اس میں موت خون کی صورت میں ہو رہی ہے اس میں خاموش موت ہوتی ہے یہ بھی ایک دہشت گردی ہے اس کو بھی دیکھا جائے۔‘‘
ملک کی قیادت نے پاکستان سمیت خطے اور عالمی امن کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھنے کے مصمم ارادے کا اعادہ کیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے آرمی پبلک اسکول واقعے کا ایک سال مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب دہشت گردی کا مکمل قلع قمع کر دیا جائے گا۔ پاکستان کا گوشہ گوشہ امن کا گہوارہ بنے گا۔ علم کی شمع بجھانے اور اندھیرے پھیلانے والوں کا وجود ختم کر دیا جائے گا۔‘‘
پاکستان کی فوج نے اس پورے سال میں دہشت گردی کے خاتمے میں بھرپور کردار ادا کیا اور ساڑھے تین ہزار سے زائد مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرتے ہوئے دہشت گرد نیٹ ورکس کو تخت و تاراج کرنے کا بتایا۔ ان عسکری کوششوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو امریکہ سمیت عالمی برادری نے بھی سراہا ہے۔