پشاور میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے سکول میں طالبان کے حملے کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے تعلیم کا استعمال کرنا چاہیئے۔
ملالہ یوسفزئی برمنگم میں حملے کی برسی کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔ اس تقریب میں سانحے سے متاثر ہونے والے کچھ بچے بھی شامل تھے۔
تقریب میں آرمی پبلک سکول کے 14 سالہ طالب علم محمد ابراہیم خان نے بتایا کہ کس طرح خود کش جیکٹوں میں ملبوس حملہ آوروں نے سکول میں داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
ابراہیم کی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی اور ان کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ کبھی نہیں چل پھر سکیں گے۔ مگر لندن کے ایک سرجن نے اس سال کے شروع میں ان کا آپریشن کیا اور اب وہ سہارے کے ساتھ چل پھر سکتے ہیں۔
ملالہ نے کہا کہ ابراہیم کی کہانی سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’جب مجھے خود گولی لگی تو وہ میری زندگی کا ایک بہت المناک لمحہ تھا مگر میں کبھی نہیں روئی۔ آج کے دن مجھے بہت رونا آیا ہے کیونکہ ان ماؤں اور بچوں کی کہانیاں بہت دردناک ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ان بچوں کا کیا قصور تھا۔‘‘
’’وہ صرف سکول جانا چاہتے تھے، وہ سیکھنا چاہتے تھے۔ ان کو بغیر کسی وجہ کے مار دیا گیا۔ ہر بچے کو زندہ رہنے کا حق ہے اور اس حملے سے اس کا یہ حق چھین لیا گیا۔‘‘
احمد نواز اس حملے میں زخمی ہوئے۔ ان کے چھوٹے بھائی حارث ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ گولی لگنے کے بعد انہوں نے خود کو مردہ ظاہر کیا اور دہشت گردوں کو اپنے استاد کو زندہ جلاتے ہوئے دیکھا۔
سکول پر حملے سے حکومت پر دباؤ پیدا ہوا کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔ وزیراعظم نواز شریف نے طالبان حملے کے بعد سزائے موت پر عائد پابندی ختم کر دی تھی اور پاکستان میں مختلف طبقہ فکر شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے حق میں متحد ہو گئے۔
احمد نواز نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے تعلیم بہت اہمیت رکھتی ہے۔
’’یہ اہم قدم ہے مگر ان کو اس میں مزید چیزیں شامل کرنی چاہیئیں۔ ان کو تعلیم کو بھی شامل کرنا چاہییے جو دہشت گردی کے خاتمے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس واقعے سے پاکستان میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔‘‘
ملالہ نے بھی روئیٹرز کو بتایا کہ اس حملے نے پاکستان کو بدل کر رکھ دیا۔
’’پاکستان اس طرح سے بدلا کہ تمام سیاسی رہنما اکٹھے اور متحد ہو گئے۔ مگر جو چیز وہ بھول رہے ہیں وہ ہے ہمارے مستقبل کی نسلوں کے لیے تعلیم۔ انہوں نے فوجی آپریشن پر اتفاق کیا مگر انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ہمیں اب اس نسل کی انتہا پسندی، دہشت گردی اور نفرت سے نمٹنے کے لیے اپنی مستقبل کی نسل کو تعلیم دینا ہو گی۔‘‘
سکول پر حملے میں لگ بھگ 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں 132 بچے بھی شامل تھے۔