پاناما لیکس میں سامنے آنے والے انکشافات کے بعد سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت دو دن کے وقفے کے بعد پیر کو جب شروع ہوئی تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل جاری رکھے۔
جماعت اسلامی نے پاناما لیکس سے متعلق اپنے موقف کی وضاحت کے لیے وزیراعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی میں بیان پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کو ذاتی وضاحت کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے پارلیمان میں جو تقریر کی اُس کے مطابق اُنھوں نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا اس لیے ’’بار ثبوت‘‘ بھی اُنھی پر ہے۔
اُنھوں نے اپنے دلائل میں یہ موقف بھی اختیار کیا کہ اس بارے میں وزیراعظم نے اپنے ’’حلف کی خلاف ورزی کی‘‘۔
درخواست گزار جماعتوں کا یہ بھی موقف ہے کہ پاناما لیکس سے متعلق اپنے موقف کی وضاحت کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی اس میں ’’تضاد‘‘ تھا، اس لیے اُنھیں ’’نا اہل قرار‘‘ دیا جائے۔
لیکن وزیراعظم نواز شریف کی جماعت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ سے کہا کہ وہ وزیراعظم سے یہ تو دریافت کرے کہ اُنھوں نے اپنی ذاتی وضاحت کے لیے قومی اسمبلی کا فورم کیوں استعمال کیا۔
اُنھوں نے اپنے دلائل میں یہ بھی کہا کہ وزیراعظم نے لندن کے فلیٹس کی خریداری کے لیے مالی وسائل یعنی ’منی ٹریل‘ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شریف خاندان کو دستاویزی شواہد جمع کروانے ہوں گے۔
پیر کو سماعت کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر راہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کا خاندان ’’1980ء سے جو ترسیلات زر ہوئی ہیں اُن کی وضاحت شواہد کے ساتھ دے رہا ہے۔‘‘
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف دائر ریفرنس میں تحریک انصاف کے سربراہ سے جو ’’منی ٹریل‘‘ یا ذرائع کی وضاحت مانگی جا رہی ہے، اُن کے بقول تحریک انصاف وہ فراہم نہیں کر رہی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں سیاسی جماعتوں سے کہا کہ عدالت کے باہر تقاریر کی بجائے وہ اس معاملے میں عدالت کے فیصلہ کا انتظار کریں۔
پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف اور دیگر درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے زیر استعمال لندن کے ایک مہنگے علاقے مے فیئر میں موجود فلیٹس مبینہ طور پر غیر قانونی ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدے گئے۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کی طرف سے مسلسل ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔