پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے منگل کو سپریم کورٹ میں ایک تحریری بیان جمع کروایا جس میں کہا گیا کہ 1992 میں شادی کے بعد سے وہ اپنے والد کی زیر کفالت نہیں ہیں۔
مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے اپنی موکلہ کے اثاثوں سے متعلق تفصیلات سپریم کورٹ میں داخل کراوئیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ پاناما لیکس سے متعلق وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
مریم نواز کی طرف سے سپریم کورٹ میں جو تحریری بیان جمع کروایا گیا اُس میں 2012 سے اُن کی طرف سے ٹیکس ادائیگیوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں، جن کے مطابق مریم نواز نے 2012 کے بعد سے اب تک دو کروڑ روپے سے زائد انکم ٹیکس ادا کیا۔
دریں اثنا پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران منگل کو بھی وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھے اور پارلیمان میں وزیراعظم کی تقریر سے متعلق استثنٰی پر بات جاری رکھی۔
مخدوم علی خان نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے کہا کہ آئین کے تحت صدر، وزیراعظم اور صوبائی گورنروں کو عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جا سکتا۔
لیکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عدالت پارلیمان کی کارروائی کا جائزہ لے سکتی ہے۔
بینچ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو وہ استثٰنی حاصل نہیں جو کہ آئین میں صدر اور صوبائی گورنروں کو حاصل ہے۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے وزیراعظم کا نہیں بلکہ رکن قومی اسمبلی کو نا اہل قرار دینے کا معاملہ ہے۔
اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر اس موقف کو دہرایا کہ وزیراعظم کی تقریر میں کوئی تضاد نہیں تھا اور کہا کہ وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر کو بطور شہادت پیش نہیں کیا جا سکتا۔
ایک مرکزی درخواست گزار جماعت تحریک انصاف کا الزام ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی قومی اسمبلی میں تقریر میں تضاد تھا اس بنیاد پر اُن کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے بیان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔