علی رانا
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین نے دہشت گردوں سے تعلق کے حوالے سے 37 اراکین پارلیمنٹ کی فہرست مبینہ طور پر انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے جاری ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آئی بی آفتاب سلطان کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
محمد قاسم نون کی صدارت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد وضوابط اور استحقاق کا اجلاس ہوا جہاں اراکین کمیٹی نے شديد احتجاج کرتے ہوئے ڈی جی آئی بی کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا۔
کمیٹی ارکان نے سوال اٹھایا کہ کیا آئی بی صرف ارکان پارلیمنٹ کے لئے بنی ہے؟ اگر فہرست آئی بی نے جاری نہیں کی تو ڈی جی آئی بی آکر وضاحت پیش کریں۔
ارکان کمیٹی نے کہا کہ ایک فہرست کے ذریعے ہم شرفا کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور اس مبینہ فہرست میں 7 وزرا کے نام بھی شامل ہیں جن پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیاست دانوں کو قرضے نہ دینے سے متعلق معاملے کا بھی جائزہ لیا گیا۔
کمیٹی اراکین نے کہا کہ بینک والے ارکان پارلیمنٹ کی تذليل کرتے ہیں۔ ارکان نے کریڈٹ کارڈ جاری نہ ہونے کے معاملے پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایک دکاندار کو تو کریڈٹ کارڈ جاری کیا جاتا ہے لیکن ارکان پارلیمنٹ کو نہیں دیا جاتا۔
وزارت خزانہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ منی لانڈرنگ کے بین الاقوامی قانون کے مطابق نمایاں شخصيات پر قرضه حاصل کرنے کی پابندی عائد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان پر پہلے ہی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اگر اس قانون کو چھیڑا گیا تو ملک کے لئے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔
اراکین کمیٹی نے تمام ارکان پارلیمنٹ کو قرضے، کریڈٹ کارڈ اور گاڑیاں لیز پر دینے کی سفارش کردی۔
یہ لسٹ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں دکھائی گئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نااہلی سے تین ہفتے قبل انٹیلی جنس بیورو کو ایک فہرست فراہم کی جس میں 37ارکان پارلیمنٹ کے نام شامل تھے۔
ان ارکان پارلیمنٹ کا روابط دہشت گردوں کے ساتھ بتائے جارہے تھے جس کی وجہ سے ان پر نظر رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اس فہرست میں سات وزرا بھی شامل تھے۔
انٹیلی جنس بیورو نے اس خبر کی سختی سے ترديد کی تھی جبکہ کابینہ اجلاس میں بھی اس معاملہ پر سخت نکتہ چینی کی گئی اور نجی ٹی وی کے خلاف انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر کی طرف سے ایک درخواست پاکستان الیکٹرانک میڈٰیا ریگولیٹری اتھارٹی کو بھی بھجوائی گئی جہاں ابھی کارروائی ہونا باقی ہے۔
، تاہم اس صورت حال سے پارلیمنٹ کے ارکان میں تشویش پائی جاتی ہے۔