آئندہ تین سال کے دوران پاکستان پر واجب الادا چین کے قرضوں کی مالیت آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں کی مالیت سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان نے یہ قرض اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت بہتر بنانے اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے حاصل کیے تھے۔
’بلوم برگ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان پر اس وقت چین سے حاصل کردہ 6.7 ارب ڈالر کے تجارتی قرضوں کا بوجھ ہے جن کی ادائیگی جون 2022 میں ہونی ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو اپنے مالیاتی بحران سے نکلنے میں مدد کے لیے اس سال ایک بیل آؤٹ پروگرام کی منظوری دی ہے، جب کہ پاکستان کو اسی عرصے میں اسے 2.8 ارب ڈالر لوٹانے ہیں۔
چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ پروگرام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک پاکستان ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مالیاتی بحران سے نجات کے لیے بیجنگ سے قرض بھی لے رہا ہے۔ لیکن، یہ رقم اتنی نہیں ہے کہ وہ اپنے خسارے پر قابو پا سکے جس کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینی پڑی ہے۔
پچھلے سال ’سینٹر فار گلوبل ڈیولپمنٹ‘ نے پاکستان کا شمار ان آٹھ ملکوں میں کیا تھا جنہیں چین کے بیلٹ روڈ پراجیکٹ کی وجہ سے قرضوں کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایس او اے ایس یونیورسٹی لندن کے ’سینٹر فار پاکستان اسٹڈی‘ کے ایک رکن بورزین واگمر کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک لحاظ سے غلط سمت میں جا رہا ہے۔ جہاں تک چین سے فراخ دلی سے قرض لینے کا معاملہ ہے تو پاکستان نے اپنے مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے وسط مدتی اور طویل مدتی اثرات کو دھیان میں لائے بغیر قلیل مدتی معاہدے کیے ہیں۔