رسائی کے لنکس

'فوٹو گرافی سے ویڈیو گرافی شروع کی لیکن پریشانیاں ختم نہیں ہوئیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

"25 سال تک پروفیشنل فوٹوگرافر رہنے کے بعد میں نے اس امید کے ساتھ ویڈیوگرافی کے میدان میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا کہ شاید حالات کچھ بہترہو جائیں۔ لیکن یہاں بھی مالی مشکلات اور پریشانیوں نے ختم ہونے کا نام نہیں لیا۔"

یہ کہنا ہے صحافی شبیر حسین معصوم کا، جو ملک کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح مہنگائی کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔

پاکستان کے وفاقی ادارۂ شماریات (فیڈرل بیورو آف اسٹیٹسٹکس) کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال مارچ میں مہنگائی کی شرح میں 35.37 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو گزشتہ پانچ دہائیوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔

اسلام آباد میں ملک کے ایک بڑے ٹی وی چینل سے وابستہ شبیر حسین معصوم گزشتہ حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا کے حالات یوں تو عمران خان کی حکومت میں خراب ہونا شروع ہو گئے تھے تاہم گزشتہ ایک برس کے دوران مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اسی انڈسٹری میں رہ کر انہوں نے اپنے آبائی علاقے گجرات میں بچوں کے لیے گھر تعمیر کیا لیکن آج وہ اپنے گھر کے اخراجات اٹھانے سے بھی قاصر ہیں۔

اپنی معاشی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے شبیر حسین کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی ادارے سے سرکاری تعلیمی ادارے میں داخل کروانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنے والےاکیلے شبیر حسین معصوم ہی نہیں بلکہ پاکستان کے کئی صحافی اسی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔

اسلام آباد کے نامدار ملک 1989 سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق آج میڈیا میں کام کرنے والے افراد کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ تنخواہیں بہت کم ہیں۔ انہیں ملازمت سے نکالا جا رہا ہے یا پھر اگر کوئی ادارہ تنخواہیں دے بھی رہا ہے تو وہ تین یا چار ماہ کے تعطل کے بعد ادائیگی کرتا ہے جس کے باعث صحافی نہ صرف معاشی مسائل بلکہ ذہنی دباؤ کابھی شکار ہیں۔

نامدار ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ وہ خود بھی ان حالات کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ موجودہ حالات کے باعث ان کی پروفیشنل صلاحیت اور اعتماد متاثر ہو رہا ہے۔

ان کے بقول اس عمل کو کسی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کوئی صحافی کام کرے اور اسے کئی ماہ تک معاوضہ نہ دیا جائے۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں حکومت سے میڈیا سے وابستہ افراد کے مسائل کے حل کا مطالبہ کر رہی ہیں اور مسائل حل نہ ہونے پر احتجاج کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔

اسلام آباد میں قائم نیشنل پریس کلب کو وفاقی دارالحکومت میں صحافیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ نیشنل پریس کلب کے صدر انور رضا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کا سلسلہ بدھ سے شروع کیا جا رہا ہے اور 20 مئی کو ملک بھر میں وزرائے اعلیٰ اور گورنرز کی سرکاری رہائش گاہوں یعنی سی ایم ہاؤسز اور گورنر ہاوسز کے باہر صحافی تنظیمیں احتجاج کریں گی جب کہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا بھی دیا جائے گا۔

دھرنے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریاست نے صحافیوں کے لیے جو قوانین بنائے ہیں حکومت ان پر عمل در آمد یقینی بنائے۔ میڈیا سے وابستہ افراد کو تنخواہوں اور واجبات کی ادائیگی کی جائے جب کہ ذرائع ابلاغ کے اداروں کے مسائل حل کیے جائیں۔

ارشد شریف قتل کیس کی ایف آئی آر درج
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:09 0:00

پاکستان میں میڈیا سے وابستہ صحافیوں اور دیگر افراد کو نہ صرف معاشی مسائل کا سامنا ہے بلکہ انہیں سیکیورٹی چیلنجز بھی در پیش ہیں۔

پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے نگراں نجی ادارے ’فریڈم نیٹ ورک‘ کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے خلاف حملوں اور انہیں دھمکیاں دینے کے کم از کم 140 کیس رپورٹ ہوئےہیں۔

فریڈم نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ حملوں اور دھمکیوں کے واقعات میں سالانہ بنیادوں پر 60 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

اس طرح پاکستان کو صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک بھی سمجھا جاتا ہے۔ میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میڈیا فریڈم انڈیکس کے مطابق 2022 میں پاکستان آزادیٴ صحافت کے اعتبار سے دنیا کے 180 ممالک میں 150 ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران سالانہ بنیادوں پر پاکستان کی درجہ بندی لگاتار تنزلی کا شکار ہے۔

’فریڈم نیٹ ورک‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کہتے ہیں کہ اسلام آباد کو پاکستان کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے لیکن وفاقی دارالحکومت بھی صحافیوں کے لیے محفوظ نہیں کیوں کہ یہاں انہیں جان سے مارنے اور تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ اکثر واقعات کی تحقیقات میں یا تو کوئی پیش رفت نہیں ہوئی یا ان کی سرے سے تحقیقات ہی شروع نہیں کی گئی۔

اقبال خٹک کےمطابق اس وقت ریاست اور اداروں کا جو فریم ورک ہے ان میں رہ کر وہ آزاد صحافت پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ایسا میڈیا چاہتے ہیں جو تصویر کا صرف ایک رُخ دکھائے۔ اس کے مقابلے میں جو صحافی تحقیقاتی اور آزاد صحافت کرکے تصویر کا دوسرا رُخ دکھانا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان میں صحافت کرنا بہت مشکل ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں یہ ایک جان لیوا پیشہ بن چکا ہے۔

دوسری جانب حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ صحافیوں کے مسائل سے آگاہ ہے اور ان کے حل کے لیے جلد حکمتِ عملی وضع کی جائے گی۔

پاکستان: 'گزشتہ 30 برسوں میں کسی صحافی کے قاتل نہیں پکڑے گئے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:38 0:00

وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ آئین میں بیان کردہ ،’ اظہارکی آزادی‘ پر یقین رکھتی ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ برس اپریل میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے وزیرِا عظم بننے کے بعد ،تشکیل پانےوالی اتحادی حکومت میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو اہے ۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب اس کو رد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ موجودہ حکومت صحافیوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے پُر عزم ہے۔ان کے مطابق میڈیا سے وابستہ افراد کی حفاظت، سلامتی اور فلاح و بہبود کا خصوصی قانون بنایا گیا ہے جب کہ حکومت کے اقدامات میں صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے تحفظ کے قانون کی منظوری بھی شامل ہے۔

مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ صٖحافیوں کے ایک ایسے آزاد کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی پورا کیا گیا ہے جس کے تحت میڈیا سے وابستہ افراد پر تشدد یا انہیں دھمکیاں دینے میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات، مقدمےکا اندراج اور سزا دینے کے اقدامات ہو سکتے ہیں۔

اسلام آباد کے صحافی شبیر حسین معصوم کہتے ہیں کہ پاکستان میں صحافت کا پیشہ اگرچہ دن بدن زوال پذیر ہے اس کے باوجود وہ امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ جب معیشت صحیح راستے پرآجائے گی تو صحافیوں کو بھی دوبارہ اچھے دن دیکھنا نصیب ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG